ColumnImtiaz Ahmad Shad

سموگ کا روگ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

گرمیوں کا جانا اور سردیوں کا آنا، ایک طرف خوشگوار تبدیلی کا باعث بنتا ہے تو دوسری جانب بدلتا موسم اپنے ساتھ کچھ مسائل بھی لاتا ہے۔ موسم سرما کی آمد سے قبل فضاخشک ہوجاتی ہے اور کچھ علاقوں میں سموگ ڈیرے ڈال لیتی ہے، خصوصاً شام اور صبح کے اوقات میں یہ صورتحال تشویشناک ہوجاتی ہے۔ صنعتی علاقوں میں سموگ واضح کثرت سے دیکھی جا سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ شہروں میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ بظاہر آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے لیکن درحقیقت یہ دھند نہیں بلکہ آلودگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے حد نگاہ بھی متاثر ہوتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ سموگ اگر برقرار رہتی ہے تو اس سے مختلف امراض کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے۔سموگ، دھند اوردھویں سے ماخوذ ایک اصطلاح ہے۔ یہ فضائی آلودگی ہے، جو انسان کی دیکھنے کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسم گرما جانے کے ساتھ ہی جب دھند بنتی ہے تو یہ فضا میں پہلے سے موجود آلودگی کے ساتھ مل کر سموگ بنا دیتی ہے۔ اس دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔ کیمیائی طور پر اس میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلانے سے نکلنے والا دھواں مثلاً بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے۔سموگ کی وجہ سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے جب ہوانہیں چلتی اور درجہ حرارت میں کمی یا دیگر موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے توآلودگی فضاء میں اوپرنہیں جاتی بلکہ زمین کے قریب ہی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ ان وجوہات کے نتیجے میں یہ غیر معمولی آلودگی کئی کئی دن تک شہرمیں برقرار رہ سکتی ہے۔
کراچی جیسے شہرمیں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ان میں پلاسٹک سے بنی اشیا اور تھیلیاں وٖغیرہ بڑی مقدار میں شامل ہوتی ہیں۔ صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کچرے کے ڈھیرکو آگ لگا دی جاتی ہے، جس سے پورے علاقے کی فضا کثیف دھویں سے آلودہ ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، فیکٹریوں اور ملوں کی چمنیاں بھی کثیر مقدار میں دھواں پھیلاتی ہیں، جو ماحول کو آلودہ اور خطرناک شکل اختیار کرنے میں معاون ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بھارتی پنجاب میں کسان گندم کی فصل کاشت کرنے کیلئے کھیتوں میں پرانی فصل کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں، جس کا دھواں ہوا کے زور پر پاکستان میں روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اس عمل نے لاہور شہر کو دنیا کا آلود ہ ترین شہر بنا دیا ہے۔سب سے پہلے 26جولائی 1943ء کو امریکہ کے شہر لاس اینجلس کو اپنے وقت کی سب سے بڑی سموگ کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید دھند کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ جاپان نے ان پر کیمیائی حملہ کردیا ہے۔ دسمبر1952ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر کو’گریٹ سموگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے12ہزار سے زائدافراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔1987ء میں گیارہ سوسے زائد نوجوان زہریلی سموگ کی وجہ سے سانس نہ لے سکے اور موت کا شکارہوگئے۔ترقی یافتہ ممالک نے سموگ میں کمی کیلئے قوانین بنا رکھے ہیں، جو فیکٹریوں میں خطرناک اور بے وقت دھویں کے اخراج پر پابندی لگاتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر فاضل مواد جیسا کہ پتے ضائع کرنے کیلئے مخصوص جگہیں بنائی گئی ہیں، جہاں دھواں ہوا میں شامل ہوکر خارج ہو جاتا ہے۔ہر سال سموگ کے باعث70لاکھ کے قریب لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر فضا میں آلودگی کی یہ شرح برقرار رہی تو اس سے سنگین قسم کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ فضا میں موجود سلفیٹ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار زمین پر بسنے والے انسانوں کے پھیپھڑوں اور دل کے نظام کے علاوہ جِلد اور گلے کو متاثر کر سکتی ہے۔ جس میں خاص طور پر دل کے امراض،پھیپھڑوں کے امراض اور سانس کی بیماریاں لا حق ہو سکتی ہیں۔عمر رسیدہ افراد، حاملہ خواتین اور چھوٹے بچے کمزور مدافعت نظام کی وجہ سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ سموگ میں زیادہ وقت گزارنا مختلف طبی مسائل کا باعث بنتا ہے۔سموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر گہرے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ دمے کے مریض ہیں تو سموگ میں جانا آپ کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔
سموگ سے سب سے زیادہ آنکھیں متاثر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان میں جلن اور خارش کا احساس ہوتا ہے۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور کھلے مقامات پر کام کرنے والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں پہلے سے سینے، پھیپھڑے یا دل کی بیماری ہو، اُن کیلئے سموگ مزید بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ملک کے بیشتر حصوںخصوصاً لاہور اور کراچی میں فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک، کان اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں اور الرجی کے مرض میں بھی مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ سموگ عموماً سب کیلئے ہی پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ ہر کوئی محض چند عادات اپنا کر سموگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ گیس سے چلنے والے آلات کے بجائے بجلی کے آلات استعمال کیے جائیں، دھوئیں والی گاڑی ٹھیک کرانا، وقتاًفوقتاً گاڑی کا تیل بدلنا اور ٹائروں کی سطح متوازن رکھنا۔یہ چند احتیاط دھواں کے اخراج میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔پاکستان میں سموگ کا ان دنوں راج ہے، بچے بوڑھے،جوان سبھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت اگر سموگ پھیلانے والے اسباب کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھاتی تو یقیناً پاکستان کو اس کے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔عوام کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سموگ ایسے مسئلے سے نمٹنے کیلئے عوام کا حکومت کے ساتھ تعاون بے حد ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button