CM RizwanColumn

سیاستدانوں پر اعتماد کیسا؟ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

سب سے زیادہ سنے، سمجھے اور غور کئے جانے والے ملک کے بڑے سیاستدان عمران خان نے اپنی سابقہ سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی سب سے بڑی غلطی سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ پر اعتماد کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جن لوگوں نے عمران خان پر اعتماد کیا اور ووٹ دیا، کیا ان کی بھی یہ سب سے بڑی غلطی تھی؟ کیا عمران خان سے پہلے ملک کے برسر اقتدار رہنے والے سابقہ حکمران سیاست دان بھی اسی طرح کی غلطیاں کرتے رہے ہیں؟ کیا عوام کا سیاست دانوں پر اعتماد کرنا عوام کی یکسر اور قطعی غلطی نہیں ہے؟ ایک زبان زد عام مفروضہ جو کسی حد تک حقیقت بھی ہے کہ پاکستانی سیاست میں یا تو بندہ بیوقوف بن رہا ہوتا ہے یا بیوقوف بنا رہا ہوتا ہے۔ اس تکلیف دہ حقیقت کے تناظر میں تو واقعی پاکستانی عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد کرنا غلطی ہوتی ہے اور جو طبقے سیاست کے ذریعے اقتدار اور اختیار کے مزے لیتے ہیں وہ عوام کے ان طبقات کو بیوقوف ہی بناتے ہیں جو اقتدار کی راہداریوں سے بہت دور سڑکوں پر رسوا ہوتے ہیںلیکن افسوس کہ پاکستانی سیاستدان فقط اپنی سیاست کا سوچ رہے ہیں۔ دعوے تو غربت ختم کرنے کے کئے جاتے ہیں مگر عملاً یہ غریب ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ملک کے اثاثوں میں اضافہ کرنے کی بجائے انہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ امیر کو غریب بنانے اور غریب کو دنیا سے رخصت کرنے کے طریقوں پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کے اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ یہ اس ملک کو سستے داموں میں فروخت کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ امر کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس سب کے باوجود عوام اس امید پر قائم ہیں کہ شاید انہی سیاستدانوں میں سے کوئی ایک عوام کے بارے میں سوچے گا حالانکہ آج ملک کا کوئی ایک سیاستدان بھی ملک کے غریب طبقے کے متعلق نہیں سوچ رہا۔ وسائل کی بجائے مہنگائی کو ملک کے کم وسائل کے حامل طبقات میں بقدر وافر بانٹ دیا گیا ہے۔
جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے آج انتہائی بدحالی کا دور دورہ ہے۔ اب ظلم یہ ہے کہ سب طبقات کو ان کے حصے کی مہنگائی سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ جو لوگ ضرورت کے تحت بجلی استعمال کرتے ہیں وہ بھی پریشان ہیں اور جنہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے اپنی زندگی کے لیے آسائشیں حاصل کرنے کی خواہش میں کام کیا، آج وہ بھی پریشان ہیں۔ مہنگائی کے اس عفریت کے سپرد ہمیں آئی ایم ایف اور آئی ایم ایف سے منسلک ان لوگوں نے کیا ہے جو ہمارے ملک کے اہم مالیاتی اداروں کے کرتا دھرتا بن کر کام بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لیے کرتے ہیں اور تنخواہیں اور کمیشن غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کرتے ہیں۔ ان سب مافیاز سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی ہمارے سیاستدان نہ تو کوئی اقدام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی ذمہ داری لیتے ہیں، انہیں نہ ملک کی پرواہ ہے اور نہ ہی غریب عوام کی۔ ان میں سے کوئی بھی جب ملک کے اقتدار پر براجمان ہوتا ہے تو آئی ایم ایف ان سے اپنی شرائط منوا کر عوام کے گلے میں قرضوں کا
ایسا طوق ڈال دیتا ہے کہ جو پورا عرصہ ان کا خون نچوڑتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ آئی ایم ایف کی دی ہوئی رقم سود سمیت ان کو واپس مل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2010ء میں پاکستان کے خزانے میں صرف 2 ارب ڈالرز تھے مگر عوام خوشحال تھے۔ بجلی کی قیمت کم تھی۔ گیس دستیاب تھی اور ڈالر 51 روپے میں پاکستان میں دستیاب تھا۔ اس دور میں پاکستان اپنی معیشت کو کامیاب کرنے کے لیے دن رات کوششوں میں مصروف رہا اور 2013 میں پاکستان کے سٹیٹ بینک کے ذخائر 7 ارب 65 کروڑ ڈالر تک جا پہنچے مگر دیگر ممالک اور دشمنوں نے سازش کرنا شروع کردی، مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی معیشت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کو سہانے خواب دکھائے جائیں۔سازشی ممالک کے مقاصد یہ بھی تھے کہ پاکستانی قوم کو قرضوں تلے دبا دیا جائے اور ایسی شرائط عائد کی جائیں جن سے معیشت تباہ ہو کر رہ جائے جن میں شرحِ سود، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکس میں اضافہ، دوائیوں اور تعلیم کو مہنگا کرنا شامل تھا اور ان تمام مقاصد پر زور و شور سے کام شروع کردیا گیا۔
بظاہر 2017 تک ہمارے سیاستدان سازشی عناصر کے شکنجے میں نہیں آئے تھے لیکن اسی سال دیگر ممالک نے ہمیں اس حد تک قرضوں میں ڈبو دیا تھا کہ ان کی سازشوں کے تحت اقدامات اٹھانا پاکستان کی مجبوری بنتی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 2018 میں جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ملک کی مجبوریاں بتاتے ہوئے دیگر ممالک کی سازشوں کے مطابق اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے جو ڈالر 2013 میں 101روپے کا تھا، اسے 2018 تک 150روپے تک کردیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں کو 70 فیصد بڑھا کر اور پٹرول کو 100 روپے سے 150 روپے تک لے جانے کے بعد باقی کام دیگر ممالک نے آگے آنے والی شہباز شریف حکومت سے یہ کہہ کر کروانا شروع کر دیا کہ اگر آپ نے ہماری شرائط نہ مانیں تو یہ ملک برباد ہوجائے گا۔ کہا گیا کہ اگر ہماری شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو سری لنکا کی طرح آپ بھی دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔ اسی بربادی کے خوف کے باعث سیاستدانوں نے عقل و شعور پسِ پشت ڈال کر پٹرول کی قیمت 250 روپے لٹر تک پہنچا دی۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی کی قیمتوں میں 170 فیصد تک اضافہ بھی کر ڈالا گیا۔ بات یہاں پر رکی نہیں بلکہ سازش کرنے والوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ پاکستان جب ڈیفالٹ کی طرف آئے گا تو اس ملک کے اداروں اور جائیدادوں کو سستی قیمتوں پر خرید لیا جائے گا۔ پس انہوں نے ڈالر کا سٹے کا دور شروع کیا جس کی بنیاد انہوں نے 2019 میں پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ایسے قوانین بنا کر رکھی تھی جن سے ڈالر کی خرید و فروخت پر کسی قسم کی حکومت کی اجارہ داری، نفاذ قانون یا تسلط نہ رہا۔ اسٹیٹ بینک کو بھی مادر پدر آزاد کردیا گیا۔ اسٹیٹ بینک ڈالر کی اونچی اڑان کے تماشے خاموشی سے دیکھتا رہا اور ان سٹہ بازوں کی حوصلہ افزائی ہوتی گئی۔ ڈالر کی قیمت 150 روپے سے 230 روپے تک پہنچ گئی اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ڈالر کو زیادہ سے زیادہ مہنگا کرنے سے باہر کے لوگوں کو بے تحاشہ فائدہ ہوا جبکہ عام پاکستانی اس کا نقصان ہی اٹھاتے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سازش ملک دشمن عناصر نے کی ہے، ان کے مطابق جب پاکستان ڈیفالٹ کرے گا تو پاکستان کی ہر چیز وہ سستے داموں خرید سکیں گے۔ آج بھی پانی سر سے نہیں گزرا۔ اگر حکمران شرحِ سود کو کم کردیں، بجلی کی قیمتیں کم کردیں، ٹیکسز میں کمی کرتے ہوئے اپنے اخراجات کم کریں اور ان پراجیکٹس کو روک دیں جن کی وجہ سے قرضوں کا دبائو بڑھتا جارہا ہے اور ان پراجیکٹس سے ہمیں معاشی طور پر فوری فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ بہتر یہ ہوگا کہ ایسے پراجیکٹس کی رفتار سست کردی جائے۔ اپنی آمدنی کے مطابق ان پراجیکٹس کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔ ورنہ تیز رفتاری کے باعث ایک دن وہ پراجیکٹ تو بن جائیں گے مگر قرضوں کی وجہ سے وہ پراجیکٹ ہمارے نہیں ہوں گے۔ یاد رہے پاکستان کی ترقی صرف اور صرف ایک ہی بنیاد پر ہوسکتی ہے کہ پاکستانی سیاست دان (حکمران) چاہے وہ عمران خان ہوں، شہباز شریف یا آصف علی زرداری آپس میں لڑنے کی بجائے ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف لڑیں کسی بھی کسی قسم کی اقتصادی سازش اور چال کو ملکی اقتصادیات میں داخل نہ ہونے دیں۔ جب عام باشعور شہری یہ جانتا ہے کہ ہماری اقتصادیات کے اصل دشمن وہ مالیاتی ادارے ہیں جو ہمیں بڑے بڑے خواب دکھا کر قرضوں پر قرض دے رہے ہیں اور حکمران بشمول پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی اپنی حکومت کے لالچ میں آپس میں لڑتے نظر آتے ہیں اور جب یہ لوگ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو اپنے ہی مضبوط اداروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں جس سے ملک کمزور ہوسکتا ہے۔ ملکی معیشت کی اس قدر زبوں حالی کے باوجود یہ سیاستدان اپنے اداروں کی عزت کرنے کو اپنا شعار نہیں بنا رہے کیونکہ آج بھی ہمارے اداروں کی وجہ سے ہی ہمارے دشمن ہم سے ڈرتے ہیں۔ عوام الناس کو سوچنا چاہیے کہ ایسے عاقبت نااندیش سیاستدانوں پر اعتماد غلطی تو نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button