ColumnNasir Naqvi

جھوٹوں اور بوٹوں کا مسئلہ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

رائج الوقت فارمولا یہ ہے کہ اتنا سر چڑھ کر جھوٹ بولو کہ سچ بھی شرما جائے،ہمیں چغلی ،جھوٹ اور حسد سے روکا گیا لیکن جس قدر جھوٹ ہم سب بولتے ہیں،دوسرے نہیں بولتے حالانکہ ان کا دین حق اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہم حق سچ کا نعرہ لگا کر انتہائی ذمہ داری سے پیٹ بھر کر جھوٹ بولتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم نے عادت بدل لی تو ہاضمہ خراب ہو جائے گا اسی لیے ہم جھوٹوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی سچ سے کتراتے ہیں۔کہتے ہیں ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں پھر بھی سچ سے کام نہیں چلاتے،پاکستانی معاشرے میں اس مصیبت سےچھٹکارا ممکن نہیں، اس لیے ایک ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں،ہزاروں موجود ہیں کاروباری حضرات ہوں کہ کاروبار سیاست کہے شہسوار سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور تو اورہمارے ذمہ دار قسم کھا کر بھی جھوٹ بولنے میں تکلف نہیں کرتے بلکہ سیاسی میدان میں یہ تضاد بیانی کچھ زیادہ ہی ہے شام کے ٹی وی شوز میں دیکھ لیں ہر پارٹی اور ہر شعبے کا ذمہ دار جو کہہ رہا ہوتا ہے صبح سب کچھ بھول کر اسکی نفی کرتا ہے قوم کا حافظہ بھی کمزور ہے اس لیے پوچھتے بھی نہیں کہ آ پ رات تو کچھ اور کہہ رہے تھے تضاد بیانی عام ہے سچ کے نام پر جھوٹ بیچا جا رہا ہے خوب بک بھی رہا ہے اس لیے کہ جدید مارکیٹنگ کا دور ہے جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے ہم اور آ پ اسے تضاد بیانی کہتے ہیں جبکہ سہیل وڑائچ کے بقول یہ کھلا تضاد ہے لیکن عوام معصوم اور مجبور ہے اس لیے سب چل رہا ہے،لمحہ موجود میں صرف عمران خان حملہ کیس اور ارشد شریف قتل کا ہی جائزہ لے لیں ہمارا جھوٹ کلچر کھل کر نہ صرف سامنے آ جائے گا بلکہ منہ چڑھاتے دکھا ئی دے گا۔ وزیر آ باد میں ملزم ایک گرفتار ہوا اس کے پاس ایک جدید اسلحہ تھا اس نے اقبال جرم بھی کرلیا اس نے جتنی گولیاں چلائیں اس سے د گنا افراد نہ صرف زخمی ہوئے بلکہ جائے وقوعہ سےاس سے زیادہ مختلف اقسام کے خول ملے ہیں۔ قائد تحریک خان عمران
خان نیازی کا دعویٰ ہے کہ انہیں چار گولیاں لگیں،سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کہتے ہیں تین چار گولیاں ماری گئیں سرکاری جناح ہسپتال کی رپورٹ میں ایک گولی،شوکت خانم کے ڈاکٹر فیصل کے مطابق گولی نہیں ٹکڑے لگے،کچھ کہتے ہیں دونوں ٹانگوں میں ایک ایک گولی لگی1122 کا اہلکارکا بیان بھی کچھ اور ہے کپتان کی پہلی پریس کانفرنس میں دونوں ٹانگوں پر پٹیاں اورپلستر تھا لیکن دوسری پریس کانفرنس میں ایک ٹانگ پر پلستر اوردوسری پر پٹیاں تھیں۔شوکت خانم میں ملک کے مقبول لیڈر اور چیئرمین عمران خان کا علاج اور معائنہ کیا گیالیکن رپورٹس غائب ہوگئیں وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے سرکاری ہسپتال سے رپورٹس بنوائیں دونوں میں تضاد پایا گیا لہٰذا وہ بھی گم ہوگئیں بقول شخصے فائل یاسمین راشدلے گئیں مقدمہ کی باری آئی تو پولیس اور مدعی کے بیانات میں اختلاف پایا گیا عمران خان نے پولیس سے ناراضگی میں آئی جی کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا آئی جی معطل بھی کر دیئے گئےاور انہوں نے عدالتی بیان میں ذمہ دار وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو قرار دے دیا۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں نےقومی اداروں اور فوج کے سپہ سالار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا عمران خان نے ایک حاضر سروس افسرکو حملہ کیس میں ملوث قرار دے دیا لیکن دوسرے ہی روزبیان میں آ گیا کہ فوج ہماری اپنی ہے اس سے کوئی ایشو نہیں، پنجاب پولیس وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے ماتحت آئی جی فیصل شاہکار کو بھی انہوں نے تعینات کیا عمران خان بڑے اتحادی ہوتے ہوئے بھی پوچھتے ہیں پنجاب پولیس کو کون کنٹرول کر رہا ہے ابھی معروف صحافی ارشدشریف کے قتل کا معمہ حل نہیں ہو سکا عمران خان کے قاتلانہ حملے کی گتھیاں الجھ کر سامنے آئیں عمران خان کہتے ہیں مجھے قتل کر دیا جائے گا لہٰذا شوکت خانم سے اپنی رہائش گاہ زمان پارک منتقل ہو گئے لیکن اپنی حفاظت کیلئے پنجاب پولیس پر اعتبار کی بجائے گلگت بلتستان کی پولیس بلائی۔ وفاق نے سی سی پی او لاہورغلام محمود ڈوگر کی خدمات واپس لے لیں انہوں نے جانے سے انکار کر دیا وفاق نے ملازمت سے معطل کردیا پنجاب حکومت نے انہیں آئی جی پنجاب بنانے کی سفارش کردی غلام محمود ڈوگر اپنی معطلی ختم کرانے لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے کورٹ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی اب معاملہ ان کی برخاستگی کا بھی بن سکتا ہے وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اپنا فسادی ایجنڈا چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آئیں عمران خان کہتے ہیں ہمارے دروازے جمہوریت پسند قوتوں کیلئے ہر وقت کھلے ہیں لیکن چوروں کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھیں گے اور نہ ہی مذاکرات میں جائیں گے تاہم ان کا مطالبہ ہے کہ حقیقی طاقتور لوگ حالات کی نزاکت کے باعث ثالثی کریں۔ صدر پاکستان عارف علوی نے پس پردہ رہ کر فرض نبھانے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ سیاسی بحران پہلے سے بھی زیادہ بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے اب یہ بھی خبر آئی ہے کہ طاقتور بھی ثالثی صدر مملکت کے ذریعے کرانا چاہتے ہیں۔ پیغام دے دیا گیا ہے کہ دونوں ہوش کرو ورنہ جوش میں رگڑے جاؤ گے۔ایسی گمبھیرصورتحال میں ہمیشہ تیسری قوت اٹھ کر ہوش میں لانے کیلئے بلا امتیاز کارروائی کرتی ہے۔ کچھ سیانے اس وقت بھی ایسی ہی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ گیٹ نمبر 4 کی سرپرستی میں پلنے والے شیخ رشید احمد مختلف بیانات میں جھوٹ اور بوٹ سے ڈراتے رہے ہیں اور اب
ان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے جھوٹ بولنا بھی ترک کر دیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس دعوے میں کتنے فیصد سچا ئی ہے پھر ڈیوٹی فل ہیں اس لیے جھوٹوں اور بوٹوں کی باتیں کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اسی لیے وہ اس وقت بھی کہہ رہے ہیں کہ تمام سیاستدان اپنے کانوں کی صفائی ،آنکھوں میں سرمہ ڈالیں اور پاکستانی بادام استعمال کرکے اپنی یاداشت بحال کریں تاکہ جب بوٹو ں کی آواز آتی ہے تو بہت کچھ ساتھ بھی آتا ہے جس سے کسی ایک کو نہیں پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے جھوٹ اور بوٹ کا جھگڑا بھی عمرانی دور حکومت میں جس انداز میں منظر عام پر آیا وہ کئی لحاظ سے منفرد ہے ۔یہ کارنامہ سابق رکن قومی اسمبلی اور سینیٹرفیصل واوڈا کا ہے، جنہوں نے جھوٹ کا سہارا لے کر ایوان بالا سینیٹ اور ایوان زیریں قومی اسمبلی سے اپنی نااہلی کر وائی۔ رہ گئی بوٹ کی بات تو یہ اعزاز بھی ان کا کوئی چھین نہیں سکتا کہ وہ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں خاص بوٹ کے ساتھ شریک ہوئے بوٹ کی مدد سے وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے کہ نہیں تنقید کا نشانہ بنے کیونکہ وہ اشاروں ہی اشاروں میں بہت کچھ کہہ گئے آج کے دور میں بھی چپ کا روزہ نہیں رکھ سکے اس لیے عمران خان کے کار خاص ہوتے ہوئے بھی پارٹی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کا دعویٰ ہے کہ لانگ مارچ میں خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں دیکھ رہا ہوں جھوٹ پر جھوٹ بولنے اور مات کھانے والے اس وقت سچے دکھائی دے رہے ہیں لانگ مارچ کے پہلے مرحلے میں لاشیں بھی نظر آئیں اور خون بھی عمران خان نے حملے میں خون بہایا اور اب وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں وہ بھی پہلے مرحلے میں ایک جگہ ٹکرا کر خون دکھا چکے ہیں کہ میں عمران خان کا وفادار ہوں ساتھ ہو ںساتھ رہوں گا میرا خون سفید نہیں ہوا۔
اس ساری تفصیل کو موجودہ سیاسی بحران میں صرف پرکھیں نہیں اسے لفظ لفظ سمجھنے کی کوشش کریں کہ جھوٹ کون بول رہا ہے اور وہ اس سے کونسا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں جھوٹ کی عادت ہم چھوڑ نہیں سکتے اوربوٹ بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے ۔فیصل واوڈا تو یہ دھمکی دے کر خاموشی اختیار کر چکے ہیں کہ اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں نے قاتلوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے بندوبست کر رکھا ہے مجھے ان کے نام اور مقام پتا ہیں لہٰذا میں نے اپنا بدلہ لینے کیلئے مال و زر خرچ کرکے انتظام کر دیا ہے لیکن اب بوٹ عمران خان کے قابو میں نہیں پھر بھی انہیں بوٹ چمکانے والی چیری بلاسم کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہے وہ وزیراعظم شہبازشریف کی نامزدگی کو بھی چیری بلاسم کی افادیت سے جوڑتے ہیں۔ مطلب آپ سمجھتے ہیں بتانے کی ضرورت ہر گز نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جھوٹوں اور بوٹوں کا مسئلہ ہمارے گلے پڑا ہوا ہے قومی اداروں اور استحکام ریاست کیلئے بھی سوالیہ نشان ہے پارلیمانی دور میں بھی ہم اور ہمارے منتخب نمائندے پارلیمنٹ سے مسائل کا حل نکالنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ ان کے ذہنوں پر تو جھوٹ اور بوٹ سوار ہے حالانکہ ہم کہلاتے ہیں جمہوری ہیں لیکن کسی کے سننے کو تیار نہیں رواداری اور برداشت بھول بیٹھے ہیں یوں ہنستی بستی ریاست میں اعتماد کی فضا کو بد گمانیوں میں تبدیل کر کے اداروں اور ذمہ داروں کی بے توقیری کر کے داد حاصل کرنے کے خواہش مند بن چکے ہیں جس سے نجات موجودہ روش سے ناممکن ہے اب کون اپنے رہنماؤں اور تمام سیاسی پارٹی کے قائدین سے یہ سوال کرے کہ آئین پاکستان قومی اداروں بےتوقیر ی کی اجازت دیتا ہے یا تحریر اور تقریر کی آزادی میں ہر شخص کو یہ اجازت ہے وہ جس کادل چاہے بے تو قیری کرے جس کا دل چاہے مادر پدر آزاد کردے یعنی کپڑے اتار دے اور جس کودل چاہے وہ برا بھلا کہے۔ میری جمع تفریق میں یہ بالکل غلط ہے اس لیے کہ جن ریاستوں میں قومی ادارے مستحکم نہیں ہوتے وہ ریاستیں بھی مستحکم نہیں ہوتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button