ColumnMazhar Ch

لانگ مارچ کیوں؟ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

ویسے تو ملکی سیاست میںاپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت وقت کے خلاف لانگ مارچ ، دھرنے یا احتجاجی سیاست کوئی نئی بات نہیں لیکن تحریک انصاف کے سیاسی منظر نامے پر آنے کے بعد ایسی احتجاجی کارروائیوں میں غیر معمولی حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف کی سیاست کا دارومدار ہی احتجاج اور دھرنوں پر رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔تحریک انصاف کے حالیہ احتجاجی سلسلے کی ایک وجہ عدم اعتمادکے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ تو سامنے ہے ہی،لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد تواس جماعت نے محض چار حلقوں میں دھاندلی کا واویلا مچا کرملک بھر میں احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو 2014کے آخر تک جاری رہا۔پلان اے، بی اور سی پر مشتمل اس طویل احتجاجی سلسلے میں تحریک انصاف نے ملکی تاریخ کا سب سے طویل دھرنابھی دیا۔اس احتجاجی دھرنے کا بظاہرمقصد توچار حلقوں کو کھلوانا اورعام انتخابات2013 میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کی تشکیل تھا لیکن اس احتجاج اور دھرنوں کا اصل مقصد پرویز مشرف پر سنگین غداری کے تحت چلائے جانے والے مقدمے کو رکوانا اور تحریک انصاف کی سیاسی اٹھان کو یقینی بنانا تھا۔ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے کے دوران عمران خان صاحب نے عوام کو سول نافرمانی پر اُکسانے کے ساتھ ساتھ بہت سے سبز باغ بھی دکھائے۔اس دھرنے کو ختم ہوئے ایک سال ہی بیتا تھا کہ تحریک
انصاف کو پاناما لیکس کی صورت میں احتجاجی سلسلہ شروع کرنے کا موقع مل گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاناما لیکس کے بعد دنیا کے درجنوں ممالک میں آف شور کمپنیاں بنانے والے سیاسی وکاروباری افراد کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں لیکن ہمارے ہاں پاناما کی آڑ میں تحریک انصاف کوسیاست چمکانے کی کھلی چھٹی دی گئی۔پاناما کی تحقیقات کیلئے دنیا بھر میں حکومتوں نے کمیشن تشکیل دیئے لیکن پاکستان میں مقتدر حلقوں کی ایما پر تحریک انصاف کی مرضی کے عدالتی کمیشن کے قیام تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔کمیشن کی تحقیقات میں پاناما پر کچھ خاص نہ ملنے پر منتخب وزیراعظم کو اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا۔
یوں تو تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے’’آزادی‘‘اور’’عوامی‘‘مارچ کیے لیکن یہ احتجاج تحریک انصاف کے احتجاجوں کے برعکس پرامن رہے۔اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کے پہلے مارچ میں اس وقت کے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل بڑی جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی کسی بھی قسم کے مارچ یا دھرنے کے نتیجے میں وزیراعظم سے استعفی لینے یا حکومت کو گھر بھیجنے کے حق میں نہیں تھی۔پیپلز پارٹی آئینی طریقے سے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے پر زور دیتی رہی اوراس مقصد کیلئے پیپلز پارٹی کی ہی کوششوں سے 2020کے آخر میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی تشکیل ہوئی جس کا بنیاد ی ایجنڈاتین مرحلوں میں مشتمل تھا۔پی ڈی ایم کے ایجنڈے میں عوامی رابطہ مہم اور لانگ مارچ کے علاوہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا بھی شامل تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کی ڈی جی آئی ایس پی آر کی تقرری اور دورہ روس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پیدا ہونے والے کھچائو نے عدم اعتماد پاس کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے پارلیمانی نظام میں موجود عدم اعتماد کے آئینی حق کاقانونی طریقے سے استعمال کیا۔اپوزیشن اتحاد کے کاری وار سے نہ صرف ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا بلکہ اپوزیشن اتحاد شہباز شریف کی صورت میں اپنا وزیراعظم بھی لانے میں کامیاب ہو گئی۔خان
صاحب کو باور کرایا گیا تھا کہ وہ پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے والے ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہوں گے لیکن ان کے حصے میں یہ اعزاز آیا کہ وہ عدم اعتماد سے ہٹائے جانے والے ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔حکومت چھننے کے بعد خان صاحب نے ایک بار پھر احتجاجی سیاست کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے۔
آج سے شروع ہونے والاتحریک انصاف کا لانگ مارچ دراصل عدم اعتماد کے ردعمل میں شروع کیے جانے والے احتجاجی سلسلے کا اہم حصہ ہے۔تاخیر کا شکار ہونے سے اب اس لانگ مارچ کے مقاصد کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں ۔ ـواضح رہے کہ پانچ ماہ قبل تحریک انصاف نے لانگ مارچ کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت کی پنجاب حکومت (حمزہ شہباز حکومت)نے لانگ مارچ کو بری طرح ناکام بنا دیا تھا۔آج اگرچہ پنجاب حکومت تحریک انصاف کے پاس ہونے کی وجہ سے لاہور سے اس مارچ کی روانگی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا مشکل ہے تاہم اس کے باوجود وفاقی حکومت لانگ مارچ کا زور توڑنے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کیلئے ہرممکن کوشش کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد خان صاحب کے بیانیے کے زیراثر ہے لیکن زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے لانگ مارچ کے نتیجے میں فوری انتخابات کا انعقاد ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ سیاسی و انتخابی نظام کا آئینی وقانونی تسلسل سب کے مفاد میں ہے۔ لانگ مارچ سے حکومت گرانے کی روایت سیاست کے ساتھ ساتھ جمہوریت کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ خان صاحب کو عدم اعتماد اور لانگ مارچ یا دھرنے کے زریعے حکومت گرانے میں فرق کو سمجھنا ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ کہ لانے والوں نے آپ کو مواقع دے کر دیکھ لیا ہے ۔ساڑھے تین یا پونے چار سالوں میں آپ نے ملک کو اقتصادی طور پر تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے اور سیاسی طور پر تنہائی کا شکار کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اب چند ماہ انتظار کر لیں ، اگر موجودہ حکومتی اتحاد معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہتا ہے تو عام انتخابات میں آپ کی جیت کی راہ ہموارہی ہموار ہوگی۔ فوری انتخابات کسی مسئلے کا حل نہیں۔اگر فوری انتخابات کے نتیجے میں آپ وفاق میں حکومت بنانے میں ناکام رہے تو آپ نے دھاندلی کا واویلا مچا کر پھر سے عدم استحکام پیدا کر دینا ہے۔ہر وقت سڑکوں پر نکلنے اورلانگ مارچ یا دھرنوں کی سیاست کی حوصلہ افزائی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ مذہبی لحاظ سے عدم برداشت کی انتہائوں کو چھونے والے پاکستانی سماج کو آپ کے جارحانہ طرز سیاست نے سیاسی طور پر بھی انتہائی عدم روادار بنا دیا ہے۔سیاسی معاملات سڑکوں کی بجائے پارلیمان میں سلجھانے کی کوشش کریں تو آپ ملک و قوم کیلئے اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔انا پسندی اور مقبولیت کے گھمنڈ میں اسی طرح مبتلا رہے تو ملک وقوم کے مستقبل کے ساتھ ساتھ آپ کا اپنا سیاسی کیرئیر بھی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button