ColumnRoshan Lal

حکومت کی چادر اور پائوں .. روشن لعل

روشن لعل

 

اردو کی مشہور کہاوت ہے کہ جتنی چادر دیکھئے، اتنے پائوں پھیلائیے۔ کہاوت کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنے حوصلے، بساط اور حیثیت سے زیادہ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی غیر معمولی کام کرتے وقت لوگ حوصلے اور بساط کی حدیں پار کرنے کی کوشش تو کم ہی کرتے ہیں مگر اپنی حیثیت کی پرواہ کیے بغیر صرف ناقابل فہم خواہشیں ہی نہیں پالتے بلکہ انہیںپورا کرنے کیلئے خطرناک کھیل بھی کھیلنے لگ جاتے ہیں۔ ایسا کچھ کر گزرتے ہوئے اگر کوئی نفع یا نقصان کے امکان کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھے تو پھر بھی صرف نظر ممکن ہے مگر جب کوئی کسی دوسرے کی چادر کا طول وعرض دیکھے بغیر اسے حد سے زیادہ پائوں پھیلانے پر اکسائے تو پھراس کے فہم اور نیت پر شک کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔وطن عزیز میں ان دنوں کچھ ایسے سیاسی بازی گر، سرگرم ہیں جو اپنی ٹانگیں تو چادر کی لمبائی سے بہت پیچھے رکھ کر ایسے گچھو مچھو ہو کر لیٹتے ہیں جیسے انہیں انتہائی گرمی میں بھی سخت سردی لگ رہی ہو، مگر خون جما دینے والی سردیوں میں دوسروں کو یہ نصیحت کرتے پائے جاتے ہیں کہ جب چادر ہے تو ٹانگیں سکیڑ کر لیٹنے کا کیا فائدہ؟ یہ بازی گر ویسے تواکثر بے چین نظر آتے ہیں مگر گزشتہ کچھ دنوں سے اپنے معمول سے بہت زیادہ بے تاب دکھائی دے رہے ہیں۔ان بازی گروں نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں علی وزیر کی رہائی کے نعرے لگاتے ہوئے اس وقت اپنی غیر معمولی بے تابی ظاہر کرنے کی کوشش کی جب بلاول بھٹو زرداری تقریر کرنے کیلئے سٹیج پر آئے۔ ان نعرے بازوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلاول نے صرف یہ کہا کہ بھائیو آپ وہاں جا کر احتجاج کریں جو ان کو رہا کرسکتے ہیں۔ علی وزیر کی رہائی کے ضمن میں بلاول نے جو کچھ کہا اس پر گہرائی میں جا کر غور کرنے کی بجائے نعرہ بازوں اور ان کے خیر خواہوں نے صرف اتنا ہی سمجھا جس سے زیادہ وہ کچھ اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ خاص قسم کی سمجھ رکھنے والوں اور ان کے میڈیائی خیر خواہوں نے بلاول سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ اگر ہم نے کسی اور سے ہی کرنا ہے تو پھر آپ حکومت چھوڑیں اور گھر چلے جائیں۔ خاص سمجھ رکھنے والوں نے بلاول کو جو کہا اس پر عش عش کرنے کیلئے کچھ میڈیائی دانشوروں نے اپنے کئی ٹی وی پروگرام صرف کر ڈالے۔ ان ٹی وی پروگراموں میں جو تبصرے فرمائے گئے ان میں یہ حیران کن تاثر ابھارنے کی کوشش کی گئی کہ بلاول ، اس کے خاندان اور پارٹی ورکروں نے تو نہ کبھی کوئی جدوجہد کی اور نہ قربانی دی جبکہ اس طرح کے تمام کام کرنے کا تجربہ صرف مبصر خواتین و حضرات کو حاصل ہے۔
بلاول نے جب یہ کہا کہ رہائی کیلئے ان کے ہاں احتجاج کرو جو اسے رہا کر سکتے ہیں تو اس وقت علی وزیر نہ کسی خفیہ ادارے ، نہ پولیس کے پاس اور نہ ہی حکومت کے رحم و کرم پرتھا۔ اس وقت اور اب بھی علی وزیر اگر کسی کے رحم و کرم پر ہے تو وہ عدلیہ ہے۔ جی ، وہی عدلیہ جس نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دو دن بعد علی وزیر کو بغاوت کے مقدمے میں رہا کرنے کا حکم جاری کیا ۔ ویسے تو علی وزیر کا جیل میں بند کیا جانا ہی کسی ستم سے کم نہیں ، مگر ستم بالائے ستم یہ بھی ہے کہ بغاوت کے مقدمے میں بے گناہ قرار پانے کے باوجود بھی وہ پابند سلاسل ہے۔علی وزیر کی اسیری سے جڑی ہوئی ان باتوں کے تناظر میں اُبھرنے والے اس سوال کو بلاجواز قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اگر ایک بندہ عمران خان کی حکومت میں بھی جیل میں تھا اور موجودہ حکمرانوں کے دور میں بھی قید ہے تو پھر دونوں حکومتوں میں فرق کیا ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکومت میں جو فرق اور مشابہات ہیں انہیں اخذ کرنا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا بیان کرنا مشکل ہے۔ اس مشکل بیان کو پس پشت ڈال کر یہاں صرف یہ آسان اور فراموش کردہ بیان رقم کیا جاسکتا ہے کہ بلاول کی پارٹی نے 2008 سے 2013 تک جو حکومت کی، اس حکومت اور بعد ازاں بننے والی تمام حکومتوں میں کیا فرق ہے۔ یہ جاننے کیلئے کہ اس حکومت اور دیگر حکومتوںمیں کیا فرق ہے اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ آج علی وزیر کوئی مسنگ پرسن نہیں بلکہ مختلف مقدمات کے تحت جیل میں رکھا گیاایک ایسا قیدی ہے جو عدالتوں کے رحم و کرم پر ہے۔2008 سے 2013 تک قائم رہنے والی حکومت کے دوران زیادہ تر ناپسندیدہ لوگ مقدمات کے تحت قید نہیں ہوتے تھے بلکہ مسنگ پرسن بنا دیئے جاتے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ تھی کہ کسی کو مسنگ پرسن بنانے کا الزام سول حکومت پر کبھی کسی نے نہیں لگایا تھا۔ اس سول حکومت کو جس قدر بے رحم ، بلاجواز اور دروغ گو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، شاید ہی اس ملک میں کسی دوسری حکومت کو بنایا گیا ہو مگر اس حکومت نے اپنے کسی بدترین ناقد پر بھی نہ کوئی مقدمہ درج کیا، نہ اس کے خلاف کوئی انسانیت سوز قانون بنایا ، نہ اس کو دبانے کی کوشش کی، نہ جیل میں ڈالا اور نہ ہی کسی کو ڈریا دھمکایا۔ایسا کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی اس حکومت کے حصے میں ذرہ برابر نیک نامی نہیں آئی تھی۔ جب اس معتدل حکومت کے بے ضرر ہونے کے باوجود بھی اس کی مرضی کے بغیر لوگوں کو مسنگ پرسن بنایا جارہا تھا اس وقت بھی اس حکومت سے یہ مطالبہ کرنے والوں کی کمی نہیں تھی کہ جب کسی کو مسنگ پرسن بننے سے روک نہیں سکتے ہو تو آرام سے اقتدار چھوڑکر گھر کیوں نہیں چلے جاتے۔ اس حکومت نے اس طرح کی باتوں پرتوجہ دینے کی بجائے جو چھوٹی سی چادر دستیاب تھی اس کے مطابق اپنے پائوں پھیلائے ۔ اس طرح احتیاط برتتے ہوئے اس حکومت نے جو کام کیا اسے صرف کمال ہی نہیں بلکہ ایک معجزہ تصور کیا جاتا ہے۔اس معجزے کو عام لفظوں میں اٹھارویں ترمیم کہا جاتا ہے۔ افسوس کہ بعد ازاں ہماری پارلیمنٹ اٹھارویں ترمیم جیسا کوئی مزید معجزہ نہ دکھا سکی۔
ہمارے ملک کو اب بھی اٹھارویں ترمیم جیسے مزید معجزوں کی اشد ضرورت ہے مگر موجودہ پارلیمنٹ میں اتنا حوصلہ، بساط اور حیثیت نہیں ہے کہ اس سے اٹھارویں ترمیم جیسی کسی قانون سازی کی توقع رکھی جاسکے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجود حکومت کو دستیاب چادر کا طول و عرض بھی انتہائی محدود ہے۔محدود چادر رکھنے والی اس حکومت کو حوصلے، بساط اور حیثیت سے زیادہ کچھ کرنے پر اکسانا اسے پارلیمنٹ کا میدان چھوڑنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس حکومت میں شامل لوگ اور جماعتیں اور حتیٰ کہ اپوزیشن بھی اگر پارلیمنٹ کے میدان میں رہیں گی تو سیاسی عمل جاری رہ سکے گا۔ اس سیاسی عمل کے تسلسل میں جب تک اٹھارویں ترمیم جیسے مزید معجزے اور مثبت نتیجے برآمد نہیں ہوتے اس وقت تک اس حکومت سے پائوں چادر سے باہر نکالنے کی نہ توقع رکھی جانی چاہیے اور نہ مطالبہ کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button