ColumnNasir Naqvi

یہ کیا ہورہا ہے؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سیاست کے اتار چڑھاو، سرپرستوں کی ناراضگی، نادانی اورنادان دوستوں کے مشورے کپتان کے لیے درد سربن چکے ہیں اقتدار دینے والوں نے نئی سلیکشن سے آ ئندہ دس سالہ اقتدار کا خواب بھی چکنا چور کر دیا میں اپنی جمع تفریق میں ہمیشہ اس بات کی نشاندہی کرتا رہا ہوں کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ نادان دوستوں کی’’نیٹ پریکٹس‘‘ میں ہی گر جائے گی اور وہی ہوا،کہ اپوزیشن کو بھی یہ راز پتا تھا اسی لیے حضرت مولانا فضل الرحمان نے اسلام آ باد کا رخ کیا تھا تو کسی ذمہ دار نے ان کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ آ پ اپنی سیاست کے لیے جو کر سکتے ہیں وہ کریں خان اعظم اپنے حکومتی بھار سے ہی گر جائیں گے پھر سب نے دیکھا تھا کہ حضرت مولانا مطمئن ہو کر گھر لوٹ گئے تھے،البتہ یقین دھانی پر خاصا عرصے بحث چلی تھی ہر کسی اپنی فکر لاحق تھی،کہنے والے تو یہ کہتےہیں کہ نیب کے سابق چئرمین جاوید اقبال بھی صادق وامین عمران خان کے ھاتھوں بلیک میل ھو گئے تھےلہٰذاا وہ خان اعظم کے ہر فیصلے پر ’’لبیک اور یس سر‘‘ کے علاوہ کچھ کہنے جو گے نہیں بچے تھے بعد ازاں سر سے پاوں تک چومنے کا سیکنڈل بھی سامنے آ گیا تھا بہرکیف موجودہ حالات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ خان کے گردونواح میں پائے جانے والے پناہ گزینوں نے اپنی ڈیوٹی ادا کر دی اور مقبولیت کے دعوے کے باوجود بھی عمران خان سے اقتدار روٹھ گیا بلکہ ہر امتحان کے بعد کوئی دوسرا امتحان ان کا استقبال کر رہا ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کے بعد ریلیف کے لیے وہ اسلام آ باد ہائی
کورٹ پہنچ گئے لیکن تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا کہ آئین اور قانون کے مطابق صرف اور صرف یہ حق الیکشن کمیشن کو حاصل ہے کہ وہ کس کو اہل قرار دےاور کسے نااہل۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ،توشہ خانہ،، کیس اور اسکی سزا محض ٹیسٹ تھا اس سے کپتان کو ایک حد تک ریلیف بھی مل گیا لیکن حکومت نے اس سزا پر آ نے والے ردعمل سے نئی راہیں تلاش کر لی ہیں جبکہ عمران خان گھیرے میں آ کر بند گلی میں پھنس گئے ہیں انہوں نے اسی ماہ میں لانگ مارچ کے اعلان کی بات پوری کرنے کے لیے جمعہ المبارک 28 اکتوبر کی کال دے دی دوسری جانب اس لانگ مارچ کو خان اعظم نے،انجوائے ایبل،، قرار دیتے بچوں،بڑوں اور خواتین کو بھر پور شرکت کی دعوت بھی دی ہےاور اسے پاکستانیوں کی حقیقی آ زادی کا جہاد بھی کہا ہے دنیا کی تاریخ کا یہ منفرد جہاد ہو گا جو ،انجوائے ایبل،، یعنی تفریحی ہو گا ورنہ انقلاب اور جہاد تو قربانیوں کی داستان ہوتے ہیں پہلے انہیں ترکی سٹائل پسند تھا لیکن اس میں بھی خون کی ہولی کھیلی گئی تھی اب ان کے ارادے تبدیل ہو گئے ہیں اسلئے کہ باوجود کوشش بھی بات بن نہیں سکی، بیک ڈور مذاکرات کی خود بات کی ہم سمجھے کسی نے رواداری اور برداشت کا راستہ دکھا دیا ہے لیکن وہ خودہی کہہ رہے ہیں ڈائیلاگ ناکام ہوگئے حکومتی دعویٰ بھی ہے کہ کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہورہی بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بہت کچھ سنا دیا کہ معیشت بہتر کئے بغیر الیکشن کا ارادہ نہیں،ابھی گیارہ ماہ باقی ہیں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں،یہ بھی کہہ دیا عمران خان اب تصدیق شدہ جھوٹے ہیں لانگ مارچ ہوگا تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا آ رمی چیف کی تقرری حکومتی آ ئینی اختیار ہے وقت آ نے پر فیصلہ ہو جائے گا حالات اس بات کی بھی چغلی کھا رہے ہیں کہ ،بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے حکومت نے عمران خان کی ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھا کراپنا تاخیری حربہ کامیاب کر لیا،صدر عارف علوی نے بھی بڑی بھاگ دوڑ کر کے معاملات بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کی بھی نہیں چلی، ایک ملاقات،دوسری ملاقات اور پھر تیسری حتمی ملاقات کا چرچا رہا،پھر بھی نتیجہ لا حاصل،اب سبکی سے بچنے اور سنجیدہ کار کنوں کا اعتماد کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کے سوا کوئی چارہ نہیں، کیونکہ مقتدرہ حلقے بھی تیسرا جمہوری دور مکمل کرانے میں سیریس لگتے ہیں اسی لیے عدالت عالیہ اور عظمیٰ نے بھی عمران خان کو پارلیمنٹ جانے کی تجویز دے دی تھی یوں خان اعظم فیس سیونگ فارمولے کی تلاش میں ہیں انہیں یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ اب
پارلیمنٹ میں ہی چوروں اور ڈاکوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا لیکن مسئلہ یہ در پیش ہے کہ پارلیمنٹیرین کو چور ڈاکو بھی تو انہوں نے ہی قرار دیا ہے وہاں گئے توخواجہ آ صف اور رانا ثنااللہ جیسے زخمی شیروں کا سامنا کرنا پڑے گا وہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرانے اسلام آ باد ہائی کورٹ گئے تو استدعا مسترد ہوگئی اور الیکشن کمیشن نے این اے95 میانوالی سے ان کی جیتی ہوئی نشست خالی قرار دے کر نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا لہٰذا مایوسی ہوئی کیونکہ ہائی کورٹ سے ان کی اچھی توقعات وابستہ تھیں نیب ترامیم کے خلاف عدالت عظمی پہنچے توان کے وکیل خواجہ حارث کہتے نہیں تھکے کہ ترامیم کے بعد یہ قانون انتہائی کمزور ہو گیا ہے جرم ثابت نہیں کیا جا سکتا،اس سے دنیا بھر میں ساکھ متاثر ہو گی پھر بھی ریمارکس ملے پارلیمان نہ چھوڑتے تو نیب ترامیم میں خامیاں دور کرا لیتے۔ اس ریمارکس سے ایسا بھی محسوس ہوا کہ جیسے عدالت عظمیٰ کہہ رہی ہے کہ سمجھایا تھا پارلیمنٹ میں جا کر اپنا کردار کرو،جرم ثابت تو تم ترامیم سے پہلے بھی نہیں کر سکے؟ اسوقت پاکستان کے معاشی اورسیاسی حالات نہ صرف برطانیہ جیسے ہو چکے ہیں بلکہ مہنگائی اور روزگاری بھی ویسی ہی ہے لیکن وہاں دو ماہ میں تین وزرائے اعظم بدل گئے،اب بھارتی نژاد تاجر وزیر اعظم منتخب ہو کررشی سونک پہلے غیر ملکی ہی نہیں، گوروں کے ملک برطانیہ کے براون یعنی کلر فل وزیر اعظم بننے کا ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئے پھر بھی سوال یہی ہے کہ کیارشی سونک برطانیہ کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکال سکیں گے، ان کی پیش رو نرٹرس صرف 45 روز بعد وزارت عظمی سے فارغ اس لئے ہو گئیں کہ وہ اپنی پارٹی مینڈیٹ کے مطابق کام نہیں کر سکیں اور یہ مدت برطانیہ میں مختصر ترین ہے اس سے پہلے جارج کیپنگ کا ریکارڈ 119 دن وزیراعظم رہنے کا تھا ، نومنتخب رشی سونک سابق وزیر اعظم بورس جانس کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے اور انہوں نے رواں برس جولائی میں اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا جس کے ردعمل میں بورس جانسن کو استعفیٰدینا پڑا تھا کیونکہ اسوقت رشی سونک کے بعد وزرا نے اجتماعی استعفے دے دیئے تھے انکے انتخاب پر بھارت میں خوشیاں منائی جارہی ہیں ان کی بیگم اکشاتا مورتی ایک معروف تاجر ناراینا مورتی کی بیٹی ہیں جنہیں بھارتی بل گیٹس بھی کہا جاتا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ رشی سونک کے دادا اور دادی پاکستان کے پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے جو تقسیم ہندوستان سے پہلے کینیا جا کر آ باد ھو گئے تھے پھر بھی10 ڈاوننگ سڑیٹ لندن کے نئے مکین کو بھارتی نثراد کہا جا رہا ہے کیونکہ وہہندو ہیں ،برطانیہ کے موجودہ معاشی اور سیاسی بحران میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والا بین الاقوامی تاجر کا بچہ عام لوگوں کے مسائل سے بھی آ گاہ ہے کہ وہ دنیا کے معاشی بحرانی دور میں عام آ دمی کے لیے فکر مند ہو گا ان کے انتخاب پر بالی وڈ کےامیتابھ بچن کا تبصرہ بڑا منفرد ہے کہ ہندوستان میں کبھی برطانیہ سے وائسرائے آ تے تھے اب ہم نے بھی اپنا وائسرائے بھیج دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button