Columnمحمد مبشر انوار

نشانہ،نشانے پر .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

اقوام عالم میں ہرریاست کو اپنے تحفظ کا اولین حق مسلمہ ہے او ر کسی بھی دوسری ریاست یا عالمی برادری اس حق سے محروم نہیں رکھ سکتی گو کہ یہ حق موجود ہونے کے باوجود ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا تصور ہنوز موجود ہے ۔ عالمی سطح پر یہ حقیقت واضح ہے کہ غیر مسلم مگر طاقتور ریاستیں اپنی بھرپور کوششوں میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے مسلم ممالک سے اپنے تحفظ کا حق چھین لیا جائے اور انہیں اپنی حفاظت کیلئے ہر صورت غیر مسلم طاقتوں کا مرہون رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بالعموم اگر دو غیر مسلم ریاستوں میں کوئی تضاد پیدا ہو بھی جائے تو اس کو فی الفور رفع کروا دیا جاتا ہے لیکن معاملہ اگر مسلم ریاستوں کے مابین ہو تو حیلے بہانے اس خلیج کو مسلسل بڑھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ،میدان جنگ میں برسرپیکار رکھ کر ان کے وسائل کو جنگ کا ایندھن بنایا جاتا ہے اور اس آڑ میں اپنی اسلحہ ساز صنعت کی فروخت جاری رکھی جاتی ہے۔اس میں کسی حد تک قصور مسلم حکمرانوں کا بھی ہے کہ پس پردہ ان حقائق کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ذاتی اختلافات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے میں بوجوہ ناکام رہتے ہیںیایہی طاقتیں ایسے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور باہمی اعتماد کا فقدان مزید بڑھ جاتا ہے،ابھی تک تو یہی کچھ منظر عام پر نظر آرہا ہے۔ستر کی دہائی میں جب ان مسلم ریاستوں میں قدآور سیاسی رہنما منظر عام پر آئے اور ان حکمرانوں نے مغرب کی اجارہ داری کے خلاف ،ذاتی اختلافات کو سمیٹنے کا عمل شروع کیا،مغربی بلاک کے مقابلے میں اسلامی بلاک بنانے کا عمل شروع کیااپنے تحفظ اور آزاد خارجہ پالیسیاں بنانے کا عمل شروع کیا،تو ان رہنماؤں کو یکے بعد دیگرے منظر سے ہٹا دیا گیا ۔ یہ وہی دور تھا جب بھارت نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ کرکے ،پاکستان کی سالمیت کو واضح طور پر چیلنچ کیا تھااور اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے،پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تمام تر عالمی مخالفت کے باوجود،پاکستان کے تحفظ کی خاطرایٹمی پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کو شروع کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کو جس مخالفت اور مسائل کا سامنا رہا،وہ آج تاریخ کا حصہ ہیں لیکن بھٹو نے کسی بھی موقع پر اپنے اس عزم سے ہٹنا گوارا نہ کیا حتی کہ تحفظ پاکستان کے جرم میں عالمی استعما ر نے بھٹو کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔
عالمی طاقت ، بھٹو جیسے ذہین و فطین شخص کو پاکستانی سیاست سے نکالنے کے باوجودپاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ رکوا سکی اور نہ ہی اس کی تکمیل تک،پاکستان کیلئے کوئی مسئلہ کھڑا کر سکی کہ بھٹو کے بعد جنرل ضیا اقتدار پر قابض تھااور اسے بھی تحفظ پاکستان عزیز تھا۔ یہ الگ بات کہ جنرل ضیا کو پاکستانی ایٹمی پروگرام کی تکمیل کیلئے افغانستان میں روسی جارحیت ایک آڑ فراہم کر گئی اور امریکہ کیلئے یہ ممکن نہ رہا کہ جنرل ضیا کو بزور اس پروگرام سے باز رکھا جا سکتا۔ان حالات کے باوجود امریکی خواہشات یا نظر بد کبھی بھی پاکستانی ایٹمی صلاحیت سے نہیں ہٹی بلکہ مسلسل پس پردہ اس کے خلاف بروئے کار آتا رہا ہے اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے امریکہ کے پاس ممکنہ طور پر بھارت ہی ایک ایسا ملک ہے،جس کے ساتھ مل کر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف بھرپور طریقے سے بروئے کار آ سکتا ہے۔ بھارت کی اہلیت بہرطور ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان رہی ہے اور کسی بھی جنگ میں بھارت کا ریکارڈ قطعی طور پر قابل فخر نہیں رہا بلکہ اس کی افواج نے میدان جنگ میں ہمیشہ سبکی ہی کروائی ہے لہٰذا پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم میں بھارت کے ساتھ اسرائیل کا گٹھ جوڑ ایک فطری عمل بنتا ہے اور امریکہ نے جب بھی ایسا سوچا،اسرائیل بھارت کے ہمرکاب رہا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کے متعلق انتہائی حساس اور ہمہ وقت تیار نظر آیابالخصوص جنرل ضیا کے دور حکومت میں ایسی ایک منصوبہ بندی کو ناکام کرنے میں جو جرأت جنرل ضیا نے دکھائی،اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ جنرل ضیا نے دنیا کو یہ باور کروا دیا کہ اگر پاکستانی ایٹمی اثاثوں پر بری نظر ڈالی گئی،ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی گئی تو نتائج کی ذمہ داری عالمی برادری پر ہو گی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام خالصتاً پاکستانی سالمیت اور تحفظ کیلئے ہے اور اس کے خلاف کوئی ایک قدم بھی پاکستان کو انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کردے گا۔جنرل ضیا کے اس واشگاف اعلان کے بعد ہی بھارت و اسرائیل کے جارحانہ عزائم فوری طور پر رک گئے تھے کہ انہیں بخوبی علم تھا کہ پاکستان کی جوابی کارروائی نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے وجود کیلئے بھی خطرہ ہو گی لہٰذا دونوں ممالک فوری طور پر ،اپنی بقاء کی خاطر،اپنے گھناؤنے اقدام سے باز رہے۔
اس پس منظر میں امریکی ترجیحات ایک دن کیلئے بھی نہیں بدلی اور اگر ریاست پاکستان یا پاکستانی اشرافیہ اس خوش گمانی میں رہے کہ چونکہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کرنے میں ہمہ وقت تیار ہیں لہٰذا امریکی پاکستانی ایٹمی اثاثوں سے متعلق اپنے منصوبے سے دستبردار ہو جائیں،دیوانے کا خواب ہے۔ کروسیڈوار کی باتیں کرنے والے کسی بھی صورت یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ایک اسلامی ملک،جس کی معاشی شہ رگ ان کے پنجہ میں ہو،اپنے ایٹمی پروگرام کے ساتھ اس کرہ ارض پر قائم رہتے ہوئے،ان کیلئے ہمیشہ کیلئے دردسر بنا رہے۔روس کے افغانستان سے نکلنے اور بعد ازاں امریکہ کے افغانستان میں وارد ہونے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما رہا ہے کہ ایک تیر سے امریکہ کئی ایک شکار کھیلنا چاہتا تھا،روس ،چین اور پاکستان کی مشکیں کسنے کیلئے افغانستان سے بہتر ٹھکانہ امریکہ کیلئے روئے زمین پر اور کوئی ممکن ہی نہیں۔افغانستان میں بیٹھ کر امریکہ نے اپنے کارڈزپوری مہارت سے کھیلنے کی کوشش ضرور کی لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستانی ایجنسیاں ،اس کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہیں اور امریکہ کیلئے سب سے بڑی مشکل یہی رہی ہے کہ وہ پاکستانی ایجنسی کے علاوہ کسی اور کی خدمات لے بھی نہیں سکتا تھا۔ اب امریکی پاکستان پر الزام دھریں یا کوسیں ،یہ سب بے معنی باتیں ہیں کہ ایک طرف اگر امریکہ اپنی خودمختاری کا ثبوت دینے کیلئے ہزاروں میل دور آ کر ،اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے ایک دوسری آزاد ریاست پر حملہ آور ہو سکتا ہے،اس ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے،تو پاکستان یا کسی بھی دوسری ریاست کیلئے اس حق سے منکر کیونکر ہو سکتا ہے؟ یہ تو خیر مغربی مقولہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو پھر اس مقولے تحت کیسے اور کیونکر پاکستان نے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے غلط کیا ہے؟خودساختہ مہذب دنیا اگر خود ان اصولوں کو تسلیم کرتی ہے تو پھر یہی اصول دوسری ریاستوں کیلئے کیسے غلط قرار دے سکتی ہے یا تو ان اصولوں میں ترمیم کرے او رایک واقعتاً مہذب ضابطہ اخلاق ترتیب دے کر اس پر خود بھی عمل پیرا ہو یا پھر اس اصول کے مطابق سب ریاستوں کو عمل کرنے کے اجازت دے۔امریکی حکام نے افغانستان میں بیٹھ کر وہاں بھارت کو پاکستان کے خلاف کھل کھیلنے کی کھلی چھوٹ دئیے رکھی،بھارت کے چودہ قونصل خانے افغانستان میں بروئے کار رہے،جہاں سے امریکی و بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان دھکیلا جاتا،جنہوں نے نہتے و معصوم پاکستانی شہریوں کے خون کی ہولی پوری درندگی کے ساتھ کھیلی۔ اس امید پر کہ اگر پاکستانی امن و امان کی صورتحال اس حد تک دگرگوں ہو جائے کہ نہ صرف امریکی مداخلت کا جواز بن سکے بلکہ دیرینہ امریکی خواہش کی تکمیل بھی ہو سکے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button