ColumnRoshan Lal

بندہ مزدور کے اوقات

روشن لعل

بندہ مزدور کے اوقات کے متعلق علامہ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل کہہ دیا تھا کہ یہ بہت تلخ ہیں۔ محنت کشوں کے اوقات کی جس تلخی کا احساس اقبال کو بیسویں صدی کے پہلے ربع میں ہوا یورپ اور امریکہ میں اسے 1760تا 1840 کے درمیان برپا ہونے والے صنعتی انقلاب کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا چکا تھا۔ گو کہ صنعتی انقلاب دنیا میں بڑی بڑی سماجی اور نظریاتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا مگر کھیت مزدور سے صنعتی مزدور بننے والے محنت کشوں کے صرف استحصال کی شکل تبدیل ہوئی۔ نئی نئی سائنسی ایجادات کی بدولت جب صنعتی انقلاب مستحکم ہونا شروع ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف جمہوریت فروغ پذیر ہوئی بلکہ نئے معاشی نظریات کے ظہور کی راہیں بھی استوار ہوئیں۔ یہ نئے معاشی نظریات صرف صنعتی پیداوار کی طلب و رسد، منڈی کے کردار اور صارفین کے رجحانات بیان کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ ان میں ان صنعتی مزدوروں کے حقوق کی بات بھی کی گئی جن کی محنت کے بغیر صنعتوں کا پہیہ چلنا ناممکن تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی قبل ازیں کسی نے پیش گوئی نہیں کی تھی جبکہ صنعتی مزدوروں کی اپنے استحصال کے خلاف شروع کی جانے والی جدوجہد نے سماجی ارتقا کے دوران ایسے اثرات مرتب کرنا شروع کر دیئے جنہیں قبول کرنے کے لیے مقتدر اور بالا دست طبقات قطعاً تیار نہیں تھے۔ صنعتکار سرمایہ داروں کی طرف سے مزدوروں کے حقوق غصب کرنے اور مزدور کے اپنے حقوق حاصل کرنے کی کشمکش کے دوران یورپ سے امریکہ تک دنیا میں ہر اس جگہ مزدور تحریکوں کا آغاز ہوا جہاں صنعتیں موجود تھیں۔ اس مزدور تحریک کے دوران 1886میں یکم مئی کا دن ایک اہم تاریخی موڑ ثابت ہوا۔ شکاگو کے مزدوروں نے مئی 1886ء میں اپنے حقوق کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کر کے جو تاریخ رقم کی وہ بین الاقوامی مزدور تحریک کا عظیم سرمایہ بن گئی۔ شکاگو کے شہیدوں کی قربانیوں کے مرہون منت یکم مئی محنت کشوں کی جدوجہد کے لیے یادگار دن بن گیا۔1886ء کے مئی کے دوران کی گئی مزدوروں کی جدوجہد کی بدولت نہ صرف محنت کشوں کے اوقات کار بلکہ حالات کار میں تبدیلی کا سفر بھی شروع ہوا۔ اس ارتقائی سفر میں رنگ ،نسل ، مذہب اور نام نہاد علاقائی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مزدوروں کے حقوق کے دفاع کے لیے علیحدہ قوانین اور الگ عدالتیں بھی قائم ہونا شروع ہوئیں۔ مزدوروں کے لیے بنائے گئے نظام قانون میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش موجود
رہی ہے ۔ مزدوروں کی جدوجہد کی وجہ سے ان کے لیے بنائے گئے قوانین میں بہتری کا سفر ہمیشہ جاری رہا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سفر میں مزدوروں نے پیچھے ہٹنے کی بجائے ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ مزدور جدوجہد کے اس بین الاقوامی سفر میں نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کے محنت کش بھی اپنے ہاتھ پائوں مارتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں بمبئی میں رائج لیبر قوانین کو ماڈل بنا کر مزدوروں کے لیے قانون وضع کیے گئے۔ اس کے بعد یہاں مختلف حکمرانوں کے دور میں ان کی تیار کردہ لیبر پالیسیوں کا نفاذ ہوتا رہا ۔ یہاں سب سے پہلی لیبر پالیسی 1955ء میں نافذ ہوئی جس کے بعد1972،1969،1959 ، 2002اور 2010میں ان برسوں کے نام سے لیبر پالیسیاں جاری کی جاتی رہیں ۔ سال 2010کے بعد یہاں کوئی ایسی لیبر پالیسی نافذ نہیں ہوئی جو وفاق اور چاروں صوبوں کے لیے یکساں طور پر تیار کی گئی ہو۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان میں صنعت اور محنت کے شعبے مکمل طور پر صوبوںکومنتقل ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبے مسابقت میں اپنے محنت کشوں کے لیے بہتر سے بہتر لیبر پالیسی بنانے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے مگر یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا ۔ پاکستان میں مزدوروں کے لیے نئی قانون سازی اور پرانے
قوانین کو بہتر بنانے کا کام کس حد تک غیر اہم سمجھا جاتا ہے اس کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں کان کنوں کے لیے 1923ء میں بنایا گیا وہ مائینز ایکٹ نافذ ہے جس میں 1973ء میں کچھ ترامیم کی گئی تھیں۔ 1923اور 1973کے بعد حالات میں زمین و آسمان جیسا فرق آچکا ہے مگر یہاں کام کرنے والے کان کنوں کوکئی دہائیوں بعد بھی نہ کوئی نیا قانونی حق دیا گیا اور نہ کوئی نیا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اگر کان کنی جیسے انتہائی خطرناک شعبے میں سو سال پرانا ایسا قانون نافذ ہے جس میں پچاس برس قبل کچھ ترامیم کی گئی تھیں تویہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں نہ صرف مزدوروں کے حقوق کو انتہائی غیر اہم تصور کیا جاتا ہے بلکہ مزدور تحریک بھی اتنی کمزور اور غیر موثر ہو چکی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی آوازوں کو صدا بصحرا سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں 1970کی دہائی کے دوران مزدور تحریک جتنی توانا تھی اتنی طاقتور شاید نہ کبھی پہلے اور نہ ہی بعد میں ہو سکی۔1970کی دہائی تک مزدور تحریک اس قدر موثر تھی کہ حکمران یہاں مزدوروں کی باتیں سننے اور مطالبات ماننے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے۔ 1970کی دہائی کے بعد یہاں یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ قبل ازیں اگر مزدور حکمرانوں اور حکومتوں پر دبائو ڈالا کرتے تھے تو بعد ازاں یہ کام تاجر اور تاجر تنظیموں نے شروع کر دیا۔ ہمارے ہاں اب بھی لاتعداد مزدور تنظیمیں اور مزدور رہنما موجود ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں مگر ان مختلف رہنمائوں اور ان کی تنظیموں کے درمیان کسی قسم کا تال میل، ربط اور اتفاق نظر نہیں آتا۔ مزدوروں کے منقسم گروہ ہر برس شکاگو کے شہیدوں کی یاد منانے کے لیے یکم مئی کے موقع پر صرف اس لیے اکٹھے نظر آتے ہیں کہ اب ہر تنظیم اور ہر رہنما کے لیے اپنے طور پر یوم مئی منانا ممکن نہیں رہا۔ مزدور تنظیموں اور رہنمائوں کے نفاق کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ محنت کشوں کے نئے مطالبات منظور ہونا تو درکنار انہیں بچیوں کی شادی گرانٹ، بچوں کے تعلیمی وظائف اور مرحومین کے کفن دفن کے وہ مالی حقوق بھی نہیں مل رہے جو تسلیم شدہ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت مزدور تحریک اور محنت کشوں کا یہ حال ہے کہ ان کے لیے اپنے تسلیم شدہ حقوق کا حصول بھی انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ مزدور تنظیموں اور ان کے رہنمائوں کو یہ ادراک ہوگا یا انہوں نے کبھی یہ سوچا ہوگا کہ وہ مصنوعی ذہانت جس سے بل گیٹس اور ایلان مسک جیسے سرمایہ دار خوفزدہ ہونا شروع ہو گئے ہیں، اس مصنوعی ذہانت کا محنت کشوں کے ان اوقات کار اور حالات کار پر کیا اثر پڑے گا جن میں بہتری کے لیے ان کے ماضی کے رہنمائوں نے اپنی جانوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔ پاکستان میں پہلے سے دگرگوں حالات کا شکار بندہ مزدور کے اوقات پر مصنوعی ذہانت کس قدر برے اثرات مرتب کر سکتی ہے یہ بات نوشتہ دیوار ہے مگر ہمارے مزدور رہنما یہ نوشتہ دیوار پڑھے بغیر دہائیوں پرانے نعری لگاتے ہوئے مزدوروں کا عالمی دن منانے میں مصروف ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button