غیر مستحکم تعلیمی نصاب
باد شمیم
ندیم اختر ندیم
ہمارے تعلیمی نصاب میں غیر مستقل مزاجی تعلیمی معیار اور نظام کو متاثر کر رہی ہے۔ ایک جامع اور مستقل تعلیمی نصاب کا قیام وقت کی ضرورت ہے تاکہ طالب علموں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے اور وہ مستقبل میں ملک کی ترقی میں موثر کردار ادا کر سکیں۔ اگرچہ نصاب میں جدت طلبا کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرتی ہے۔ اس سے وہ بین الاقوامی سطح پر بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور انہیں مختلف ممالک میں بھی تعلیمی اور پیشہ وارانہ مواقع مل سکتے ہیں۔ تاہم نئی تبدیلیاں اکثر طلبا کے لیے مشکلات لئے ہوتی ہیں کیونکہ انہیں پرانے نصاب کے بجائے نئے مواد کو سمجھنا اور یاد کرنا ہوتا ہے۔ اس سے وہ ذہنی دبائو میں آجاتے ہیں اور ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اگر اساتذہ کو نصاب کی تبدیلی کے مطابق تربیت نہ دی جائے تو وہ نئے نصاب کو بہتر طریقے سے پڑھانے میں ناکام رہتے ہیں، جس کا منفی اثر طلبا کی تعلیم پر پڑتا ہے۔ بے وقت نصاب میں تبدیلی امتحانات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ طلبا اکثر نئے نصاب کو مکمل طور پر سمجھنے میں وقت لگاتے ہیں، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ بہت کچھ بدل دیا جاتا ہے۔ اب موجودہ حکومت کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ امسال میٹرک امتحان میں سوالیہ پرچہ میں conceptual/analytical پچیس نمبر کے سوالات شامل کئے جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے طلبا و طالبات کے سوچنے سمجھنے اور چیزوں کو عملی زندگی میں استعمال کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ایسی تبدیلی تعلیمی سال کے آغاز میں ہونی چاہیے تھی لیکن کسی بھی چیز کو نصاب کا حصہ بنانے سے پہلے اس پر مشاورت کرنی چاہیے اور جن اساتذہ نے بچوں کو نصاب پڑھانا ہو ان کی مناسب تربیت کرلی جائے۔ راتوں رات جاری ہونے والے حکم ناموں سے بہتری کی بجائے بدتری جنم لیتی ہے۔ اس لیے کہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی جہاں طلبا کو جدید دور کے مطابق علم فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے، وہیں اس کے ساتھ کچھ مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نصاب کی تبدیلی کا عمل تدریجی اور منظم ہو تاکہ طلبا کو اس سے بہم فائدہ پہنچے اور وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ اساتذہ کو بھی اس تبدیلی کے مطابق تربیت فراہم کرنا لازمی ہے تاکہ وہ طلبا کو بہتر طریقے سے رہنمائی فراہم کر سکیں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو تعلیمی نظام میں استحکام کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس کے نتیجے میں طالب علموں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر نئی حکومت کے ساتھ تعلیمی پالیسیوں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ حکومتیں اکثر اپنے نظریات اور منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے نصاب میں تبدیلیاں کرتی ہیں، جس سے ایک مسلسل نصاب کے قیام میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نصاب پر اکثر سیاسی جماعتوں، امداد دینے والوں اور قرض دینے والی طاقتوں کا اثر ہوتا ہے، جو اپنے مقاصد کے مطابق تبدیلیاں کرواتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں تعلیمی نظام میں غیر مستقل مزاجی کا باعث بنتی ہیں۔ دنیا پر حکومت کرنے والی طاقتیں اپنے فائدے کے لیے ہمارے تعلیمی نصاب میں مذہبی یا ثقافتی مواد شامل کرواتی رہی ہیں جس سے تعلیمی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں پاکستان میں تعلیمی وسائل کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب نصاب کو مستقل بنیادوں پر اپڈیٹ کرنے یا ایک ہی نصاب کو تمام صوبوں میں رائج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مالی اور انتظامی مسائل پیش آتے ہیں۔ تیزی سے کی جانے والی نصابی تبدیلیوں سے تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ اساتذہ کو نئے نصاب کی تیاری اور تدریسی مواد کو اپڈیٹ کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔
تعلیمی نصاب کی تبدیلیوں کے باعث طلباء کو مختلف امتحانات میں مشکل پیش آتی ہے۔ نصاب کی غیر مستقل مزاجی سے طلباء کی ذہنی اور تعلیمی نشونما متاثر ہوتی ہے۔ اساتذہ کی تربیت پر منفی اثرات: جب نصاب تبدیل ہوتا رہتا ہے تو اساتذہ کو بار بار تربیتی پروگراموں میں شامل ہونا پڑتا ہے، جس سے ان کی تدریسی ذمہ داریوں میں خلل آتا ہے اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس صورتحال سے دوچار لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مستقل حل کیا ہو سکتا ہے۔ سب سے آسان حل یہ ہے کہ ریاست کو ایک طریقہ کار طے کر لینا چاہیے۔ تھنک ٹینک بنا کے ایک مستقل تعلیمی پالیسی بنائے جسے تبدیل نہ کیا جائے، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں صرف ضروری اصلاحات کی جائیں۔ باہمی مشاورت سے وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا نصاب تیار کرے، جو تمام صوبوں کے لئے قابل قبول ہو تاکہ تعلیمی معیار میں یکسانیت آئے۔ بہت ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب کو سیاسی و ثقافتی دبا سے آزاد کیا جائے تاکہ طلباء کو معیاری اور مستقل تعلیم حاصل ہو سکے۔ اساتذہ کی تربیت کو بھی مستقل بنیادوں پر انجام دیا جانا چاہیے تاکہ وہ ہر نصاب کو موثر طریقے سے پڑھا سکیں۔
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے، اور اس تعلیم کو موثر بنانے میں نصاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نصاب، دراصل تعلیمی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے جو طلبا کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرتا ہے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً نصاب میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق علم فراہم کیا جا سکے۔ تاہم، نصاب میں کی گئی تبدیلیاں طلبا کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں، جو مثبت اور منفی دونوں ہو سکتے ہیں۔ نصاب کی تبدیلی جدید دور کے علوم، ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ اس سے طلبا کو جدید ترین معلومات اور مہارتیں حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جو انہیں عملی زندگی میں کامیاب بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
conceptual/analytical کو فوری نافذ کرنے کی بجائے اس پر مزید مشاورت کی جائے ۔اساتذہ کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے اور پھر اسے مستقل بنیادوں پر تعلیمی نظام کا حصہ بنا دیا جائے۔ بلکہ ایسے سوالات کو نہم دہم کی بجائے فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر میں ہونا چاہئے تصوراتی اور تجزیاتی سوالات رکھنے کیلئے سٹوڈنٹس کی عمر کا تعین کرنا بھی لازم ہے اب جبکہ میٹرک کے امتحانات میں چند ہی ماہ باقی ہیں تو اس بابت سٹوڈنٹس میں گہرا اضطراب پایا جارہا ہے کہ سال بھر کی تیاری دو تین ماہ میں کرنی مشکل ہو جائے گی لہذا ایسے سوالات کو نئے تعلیمی سال پر اٹھایا جائے جس کا اعلان بھی فی الفور کرکے طلباء کو ذہنی اذیت سے بچایا جائے ۔
اب رجب چودھری کے بھیجے اشعار پڑھیے:
جو محمدؐ کے دوارے کا گدا ہوتا ہے
یوں سمجھیے اسے آقاؐ نے چنا ہوتا ہے
آلِ احمد کے فقیروں پہ اٹھا مت انگلی
ان کا رتبہ تری سوچوں سے بڑا ہوتا ہے
ان کو عاموں کی کسوٹی پہ پرکھنے والے
ان کا انداز زمانے سے جدا ہوتا ہے
تیرے سجدوں سے ورا عشق کا سجدہ واعظ
یہ وہ سجدہ جو تہہِ تیغ ادا ہوتا ہے
میں حسینی ہوں نہ مشکل سے ڈرائو مجھ کو
علیؓ والوں کو کہاں خوفِ بلا ہوتا ہے
مجھ کو بے یار و مددگار سمجھنے والے !
میں اکیلی تو نہیں ساتھ خدا ہوتا ہے
میں تو ہر حال میں راضی بہ رضا رہتی ہوں
اور ہوتے، جنہیں قسمت سے گلہ ہوتا ہے
عین ممکن ہے کہ بخشش کا وسیلہ ٹھہرے
ایک مصرع جو عقیدت میں کہا ہوتا ہے
شعر گوئی کا ہنر عام رجب ہے لیکن
منقبت لکھتا وہی ہے جوچُنا ہوتا ہے