Column

پاکستان کرکٹ بہتری کی طرف گامزن

کلین بولڈ
تحریر: چودھری راحیل جہانگیر
پاکستان کرکٹ ٹیم دنیا کی واحد ٹیم ہے جس کے بارے میں آپ کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ اگر یہ ہارنے پر آئے تو امریکہ جیسی ٹیم سے ہار جائے اور جیتنے پر آئے تو بڑی بڑی ٹیموں کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے۔ یعنی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے۔ پچھلے چند سالوں سے مہنگے غیر ملکی کوچز بھی پاکستان کی ٹیم میں کوئی بہتری نہیں لا سکے۔ نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا تھا۔ یہی وجہ تھی جو کھلاڑی ٹیسٹ ٹیم میں ہوتے تھے وہی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی شامل کر لیے جاتے تھے۔ بابر اعظم کی شکل میں ایک ورلڈ کلاس بیٹسمین تینوں فارمیٹس کی ٹیموں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھا اور ہر فارمیٹ کی کرکٹ میں بہتر پرفارم کر رہا تھا جس سے پاکستان کی بیٹنگ کا بھرم قائم تھا۔ بابر اعظم آئوٹ آف فارم کیا ہوا پاکستان کی ٹیم امریکہ، افغانستان، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ کھیل کا کوئی پلان نظر آتا تھا نہ منصوبہ بندی۔ پاکستان کرکٹ کے حالات منجدھار میں پھنسی ہوئی کشتی جیسے تھے جسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ پاکستان کی کرکٹ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں پر انحصار کرتی تھی جہاں نیا ٹیلنٹ سامنے آتا تھا۔ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کی تعداد دو درجن سے زیادہ تھی۔ عمران خان کے دور میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو ختم کرکے آسٹریلیا کی طرز پر صوبائی ٹیموں کے درمیان ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی جائے گی۔ اس تجربے سے پاکستان کرکٹ کا جنازہ نکل گیا۔ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں سے نیا ٹیلنٹ سامنے آنے کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو بنکوں، پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا میں نوکریاں بھی ملتی تھیں جس سے کھلاڑیوں کے معاشی تفکرات ختم ہو جاتے تھے۔ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کے خاتمہ کے بعد سیکڑوں کھلاڑی بے روز ہوگئے۔ ایک طرح سے وہ سڑکوں پر آگئے۔ ان کو محسوس ہوتا تھا کرکٹ کھیلنا وقت کا ضیاع ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے نامور کھلاڑیوں نے دوسرے ممالک کا رخ کیا اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ انگلینڈ، آسٹریلیا اور ساتھ افریقہ جیسی بڑی ٹیموں میں جگہ بنائی۔ امریکہ میں پاکستان کے کئی نامور کرکٹر شفٹ یو چکے ہیں ۔ اس پر ظلم یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کوئی کل وقتی سربراہ بھی میسر نہ آسکا۔ جو حکومت آئی اس نے اپنے من پسند بندے کو کرکٹ بورڈ کا سربراہ مقرر کرکے سیاسی طور پر نوازا۔ تیزی سے سربراہان کی تبدیلی سے کسی بھی سربراہ کے پلان پر پوری طرح عمل نہ کیا جا سکا۔ رمیض راجہ جیسا تجربہ کار کرکٹر بھی بطور سربراہ بورڈ پاکستان کی کرکٹ میں بہتری نہیں لا سکا۔ پاکستان کرکٹ کے سربراہ سیاسی ہمدردیوں پر لگائے گئے۔ نجم سیٹھی جس کا دور دور تک کرکٹ سے لینا دینا نہیں تھا میاں نواز شریف نے اسے بورڈ کا سربراہ بنا دیا۔ اسی طرح عمران خان نے رمیض راجہ کو، آصف علی زرداری نے اپنے دوست زکا اشرف کو بورڈ کا سربراہ بنایا۔
سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان میں کرکٹ عملی طور بند تھی۔ غیر ملکی ٹیمیں سیکورٹی تھریٹ کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہیں کرتی تھیں۔ اسی دوران پاکستان نے پی سی ایل کا انعقاد کیا اور چند سالوں کے بعد پاکستان میں کرکٹ کی رونقیں بحال ہوگئیں۔ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے بعد نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان کے دورے کئے ان دوروں میں ڈیڈ وکٹیں بنا کر کرکٹ کھیلی گئی مگر اس کے باوجود ہار پاکستان کا مقدر ٹھہری۔ حالیہ دورہ پاکستان میں انگینڈ نے پہلے ٹیسٹ میچ میں جو ملتان میں کھیلا گیا ایک اننگز میں آٹھ سو رنز بنا کر پاکستان کو ایک اننگز سے شکست دی۔ محسن نقوی نے سلیکشن کمیٹی تبدیل کر دی۔ عاقب جاوید کو سلیکشن کمیٹی میں شامل کیا جس نے آتے ہی آوٹ فارم بابر اعظم کو باہر بٹھایا اور ڈومیسٹک سیزن میں بہترین کارکردگی دکھانے والے کامران غلام کو ٹیم میں شامل کیا جس نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری سکور کی۔ وکٹوں کو گھاس سے عاری کرکے الیکٹرک پنکھوں سے وکٹوں کو خشک کیا گیا۔ اسپین ٹریک بنائے گئے۔ نعمان علی اور ساجد خان جیسے اسپن بائولرز کو ٹیم میں شامل کیا گیا جنہوں نے انگلش بیٹنگ کا بھرکس نکال دیا اور پاکستان دونوں ٹیسٹ میچ واضح مارجن سے جیت کر سیریز جیت گیا۔ عملی طور اب پاکستان کرکٹ عاقب جاوید کے حوالے کردی گئی ہے۔ پاکستان کے دورہ آسٹریلیا اور زمبابوے کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کئی نئے چہرے ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔
افتخار احمد، عماد وسیم، سرفراز احمد، فہیم اشرف، حسن علی، فخر زمان، آصف علی، شاداب خاں، محمد نواز، حیدر علی اور محمد حارث جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کر دیا گیا ہے۔ نئے کھلاڑیوں کی شمولیت سے پاکستان کو مستقبل میں نیا ٹیلنٹ ملے گا۔ ان دوروں میں ہار جیت کے برعکس ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے حقدار کھلاڑیوں کو موقع دینا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ایسا لگتا ہے عاقب جاوید کی سربراہی میں پاکستان کی کرکٹ بہتری کی طرف گامزن ہو چکی ہے۔ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کو بحال کرنے کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کو معاوضے اور انعامات دئیے گئے ہیں۔ جس سے پاکستان کرکٹ میں بہتری آنے کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں

جواب دیں

Back to top button