Column

کیا ہم تیز رفتار زندگی میں اپنی انسانیت کھو رہے ہیں؟

کیا ہم تیز رفتار زندگی میں اپنی انسانیت کھو رہے ہیں؟
کالم نگار : امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
دنیا نے ہمیشہ ترقی کی ہے، مگر شاید انسانی تاریخ میں پہلی بار ہم ایسی رفتار سے بدلے ہیں جس نے ہمیں اپنی بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آج زندگی کی سہولتیں بے شمار ہیں، رابطے وسیع تر ہیں، دوریاں سمٹ چکی ہیں، مگر انسان ایک عجب اضطراب کا شکار ہے۔ یہ سوال پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکا ہے کہ کیا ہم اس تیز رفتار زندگی میں اپنی انسانیت، اپنے احساسات، اپنی قدریں اور اپنے رشتے کھو رہے ہیں؟ یا پھر ہم شعوری طور پر اس سمت دھکیلے جا رہے ہیں جہاں مشینیں ہماری زندگیوں کا نہیں، ہمارے جذبات کا بھی تعین کرنے لگیں؟
صبح کی پہلی کرن ہمارے چہرے پر نہیں بلکہ موبائل اسکرین پر پڑتی ہے۔ جاگتے ہی انسان نہیں، بلکہ نوٹیفکیشنز ہمارا استقبال کرتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہماری روزمرّہ کی ترجیحات ازخود طے ہو جاتی ہیں: ہمیں کس خبر پر توجہ دینی ہے، کس بحث میں الجھنا ہے اور کس ورچوئل دنیا میں کچھ دیر گزارنی ہے۔ اسی لمحے سے دن کا وہ پہیہ حرکت میں آجاتا ہے جس میں انسان ایک گھوڑے کی طرح جُت جاتا ہے، مگر منزل کا علم اسے نہیں ہوتا۔
سماجی رابطوں کے بے پناہ ذرائع نے بظاہر فاصلے کم کیے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری تنہائی پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہو چکی ہے۔ گھروں میں افراد موجود ہیں، مگر ہر شخص کے ہاتھ میں اسکرین ہے اور ذہن کسی اور دنیا میں مقیم۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ مصروف ہیں، لیکن مصروفیت کے باوجود کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں۔ ہماری ترجیحات سے رشتے پیچھے ہٹتے چلے گئے ہیں اور ایک ایسا خلا وجود میں آگیا ہے جسے کوئی ٹیکنالوجی پُر نہیں کر سکتی۔
رشتوں میں سرد مہری، گفتگو میں بے ربطی، سوچ میں بے صبری اور دل میں بے چینی اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا، بلکہ برسوں میں ہونے والی وہ مسلسل تبدیلیاں ہیں جنہیں ہم نے ترقی کا نام دے کر قبول کر لیا۔ ہم بھول گئے کہ ترقی کا پہیہ جتنا بھی تیز ہو جائے، انسانی جذبات کا پیمانہ سست روی کا تقاضا کرتا ہے۔ محبتیں فوراً نہیں ہوتیں، دوستیاں جلدی میں نہیں بنتیں، گھروں کی بنیادیں صبر سے مضبوط ہوتی ہیں۔ مگر ہم نے ہر چیز میں جلدی چاہی، حتیٰ کہ رشتوں میں بھی۔
سوال یہ ہے کہ اصل غلطی ٹیکنالوجی کی ہے یا ہماری؟ ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان بنایا، سہولتیں فراہم کیں، دنیا کو ایک بٹن کی دُوری پر لے آئی۔ مگر ٹیکنالوجی نے کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انسانی جذبات کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہ فیصلہ ہم نے خود کیا۔ ہم نے زندگی کا بوجھ مختصر کرنے کے چکر میں تعلقات کا بوجھ اتار پھینکا۔ ہم نے بچوں کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے انہیں اسکرین کے حوالے کیا، ہم نے بزرگوں کی بات سننے کے بجائے ’’ مصروف ہوں ‘‘ کہہ کر بات ٹال دی، ہم نے دوستوں کے دکھ سننے کے بجائے میسج پر ’’ اللہ آسان کرے‘‘ لکھ کر فرض پورا سمجھ لیا۔ ہم نے مشترکہ بیٹھکوں کو چھوڑ کر تنہا کمروں میں قید ہو جانا پسند کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان خود سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی تو جیتا ہے لیکن محسوس نہیں کرتا۔ اس کے پاس الفاظ ہوتے ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ اس کے پاس دکھ ہوتے ہیں لیکن کہنے کی ہمت نہیں۔ وہ دنیا کے سامنے مسکراتا ہے لیکن دل کے اندر ایک خاموش ماتم برپا ہوتا ہے۔ یہی وہ تنہائی ہے جسے آج لاکھوں لوگ سہہ رہے ہیں، لیکن کوئی اس کا اعتراف نہیں کرتا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انسانوں سے زیادہ مشینوں کے اصول اپنانے لگے ہیں، تیز، بے صبر، بے احساس، فوری نتائج کے طلبگار۔ مگر مشینوں میں وہ روح نہیں جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ انسان برداشت سے بنتا ہے، محبت سے بنتا ہے، گفتگو سے بنتا ہے، قربت سے بنتا ہے۔ جب یہ عناصر کمزور ہوجائیں تو چہروں کے درمیان موجود فاصلے، دلوں کے درمیان موجود خلا میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرتی رویوں میں بھی ایک خطرناک تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ برداشت کا مادہ کم، ردعمل کا رجحان زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم اختلاف رائے کو دشمنی سمجھتے ہیں، تنقید کو حملہ تصور کرتے ہیں اور خاموشی کو بے اعتنائی۔ یہ رویے معاشروں کو کمزور کرتے ہیں، خاندانوں کو توڑتے ہیں اور ذہنوں میں نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ ہم نے سوچنے کے بجائے ردعمل دینا سیکھ لیا ہے، جبکہ انسانیت کا پہلا اصول یہی ہے کہ ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارا مستقبل، یعنی ہماری نئی نسل، سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ بچے اب کھیل کے میدان میں نہیں، اسکرینوں میں پلتے ہیں۔ وہ ماں باپ کی آنکھوں میں محسوس ہونے والی محبت سے زیادہ رنگین کارٹونز اور ٹرینڈنگ ویڈیوز کے عادی ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ان کی شخصیت، ان کا احساس، ان کی گفتگو اور ان کی معاشرتی تربیت کس سمت جا رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں آج تلاش کرنا ہوگا۔
کیا ہم اپنی رفتار کم کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ دنیا کی رفتار کبھی نہیں رکے گی۔ ترقی کا سفر کبھی نہیں تھمے گا۔ مگر ہم اپنے رویوں کی سمت ضرور بدل سکتے ہیں۔
ہم اپنے گھروں میں چند منٹ کے لیے موبائل رکھ کر انسانوں کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔
ہم اپنے والدین کی گفتگو میں وقت دے سکتے ہیں۔
ہم بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی دلچسپیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم دوستوں سے مل کر دل کی بات کر سکتے ہیں، مسکراہٹ بانٹ سکتے ہیں، ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے ہیں۔
یہ چھوٹے چھوٹے کام انسانیت کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ بیج ہیں جن سے معاشرے اگتے ہیں۔ یہ وہ چراغ ہیں جن سے گھروں میں روشنی برقرار رہتی ہے۔ اگر ہم نے انہیں بجھنے دیا تو تیز رفتار زندگی ہمیں ایک ایسی کھائی میں دھکیل دے گی جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔
میرا اس موضوع پر کالم لکھنے کا مقصد میری زات سمیت تمام معاشرے کو ایک آئینہ دکھانا ہے، وہ آئینہ جس میں خامیاں بھی نظر آئیں اور درست راستہ بھی۔ آج ہمیں اسی آئینے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم نی آج فیصلہ نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہم سے یہی پوچھیں گی:
تم نے سہولتوں کی تلاش میں زندگی کو اتنا مشکل کیوں بنا لیا؟
تم نے مشینوں کے ہوتے ہوئے انسانوں کو کیوں کھو دیا؟
اور سب سے بڑھ کر تم نے وقت بچا کر آخر کیا پایا؟
شاید ان سوالوں کا جواب ہی ہماری اصل منزل ہے۔
اور شاید وہ منزل اب بھی ہماری پہنچ میں ہے، اگر ہم رکیں، سوچیں، اور انسان ہونے کا حق ادا کریں۔

جواب دیں

Back to top button