Column

ملکی مستقبل کی سمت

ملکی مستقبل کی سمت
اور فیلڈ مارشل کا عزم
پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی سطح پر ایسے چیلنجز سے نبردآزما ہے جن کی نوعیت تبدیل ہورہی ہے اور پیچیدہ بھی ہوتی جارہی ہے۔ دہشت گردی، منظم جرائم، بیرونی حمایت یافتہ نیٹ ورکس، ہائبرڈ وار فیئر اور خطے میں تیزی سے بدلتے جیو پولیٹیکل حالات، یہ سب ایسے عناصر ہیں جو کسی بھی ریاست کی پالیسی سازی، حکمتِ عملی اور سیکیورٹی ڈھانچے پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔ ایسے ماحول میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے گزشتہ روز کے خطاب نے قومی سلامتی کے تناظر میں واضح بیانیہ پیش کیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف پُرعزم ہیں بلکہ بدلتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیت، یکجہتی اور مربوط حکمت عملی کو بنیاد بنا رہی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 27ویں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔ یہ ورکشاپ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا ایک نمایاں پروگرام ہے جو نہ صرف پارلیمنٹرینز اور اعلیٰ سول و عسکری افسران بلکہ سماجی و تعلیمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمائندگان کو بھی ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قومی سطح کے فیصلوں میں شامل مختلف اسٹیک ہولڈرز قومی سلامتی کے چیلنجز کو یکساں تناظر میں سمجھنے اور مشترکہ حکمت عملی بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہی وہ مربوط سوچ ہے جو ہر کامیاب ریاست کے پالیسی ڈھانچے کی بنیاد ہوتی ہے اور پاکستان میں بھی یہی عمل مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ پاکستان کو جن دہشت گرد گروہوں کا سامنا ہے، وہ صرف داخلی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے پیچھے بیرونی حمایت، فنڈنگ اور سہولت کاری بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ قربانیاں دہشت گردی کی جنگ میں دی ہیں۔ مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز آج بھی اسی عزم کے ساتھ کھڑی ہیں، جس نے ماضی میں بڑے دہشت گرد نیٹ ورکس کو شکست دی۔ انٹیلی جنس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودہ کارروائیوں میں منظم جرائم، منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی نیٹ ورکس کے خلاف نمایاں کامیابیاں مل رہی ہیں۔ بہتر بارڈر کنٹرولز اور غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے اقدامات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں ’’ ہائبرڈ حربوں‘‘ کا ذکر کرکے ایک نہایت اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آج جنگ صرف بارود اور اسلحے سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ جھوٹی اطلاعات، نفسیاتی دبا، معیشت کو دبا میں لانا، سیاسی انتشار، سماجی تقسیم کے ذریعے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سب ایسے حربے ہیں جو دشمن کو گولی چلائے بغیر کوئی ملک کمزور کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ قومی یکجہتی ہی ان ہائبرڈ حملوں کا اصل نشانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری قیادت مسلسل اس حقیقت کی نشان دہی کررہی ہے کہ دشمن کا سب سے بڑا وار پاکستان کے اندر انتشار پیدا کرنا ہے۔ اس تناظر میں عوام، سیاسی قیادت، میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وطن دشمن پروپیگنڈے کا آلہ نہ بنیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کے عالمی کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق عالمی مقام حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے، پاکستان کی چین کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنرشپ قائم ہے، افغانستان اور وسطی ایشیا کی سمت زمینی راستے یہیں سے مل رہے ہیں، وطن عزیز سمندری راستوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ سی براہ راست جڑا ہوا ہے، گوادر عالمی تجارتی مرکز بن رہا ہے، یہ سب عوامل پاکستان کو دنیا کی سیاسی و معاشی حرکیات میں ایک منفرد مقام دیتے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خطاب میں سب سے نمایاں پیغام یہی تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے عوام اور ان کی یکجہتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس نے ہر دور میں پاکستان کو سنبھالا دیا ہے۔ خواہ وہ 1965ء کی جنگ ہو، دہشت گردی کا عفریت ہو یا معیشت کے چیلنجز۔ ہر دور میں پاکستان نے اپنی اجتماعی قوت سے مشکلات عبور کی ہیں۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی، عوام کا اعتماد، سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ پاکستان آرمی کی جانب سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کا اظہار اسی سمت کی پیش رفت ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واضح طور پر کہا کہ سرحدی سالمیت، قومی سیکیورٹی، ہر شہری کا تحفظ، ایسے اصول ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ بیان دراصل اس قومی بیانیے کی تجدید ہے کہ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے اور پاکستان اپنے دشمنوں کے تمام مذموم عزائم کو ناکام بنانے کی صلاحیت اور عزم رکھتا ہے۔ یہ وہ اعتماد ہے جو قوم کو بھی مضبوط بناتا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کی پوزیشن بہتر کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک نئے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایک ایسا مرحلہ جو چیلنجز کے ساتھ موقع بھی رکھتا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ جیسے فورمز ملک میں ہم آہنگ سوچ کے فروغ کے لیے اہم ہیں جب کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا خطاب قومی سلامتی کے بیانیے کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ان کا واضح پیغام یہی ہے کہ پاکستان کو اپنے مستقبل پر یقین ہونا چاہیے، دشمن کے ہائبرڈ حربوں کو سمجھنا ضروری ہے، قومی یکجہتی ہی ہماری اصل طاقت ہے۔ اور قومی اداروں کا تعاون ہی مستقل استحکام اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اگر پاکستان نے یہی سمت برقرار رکھی تو آنے والا وقت یقیناً زیادہ مضبوط، مستحکم اور پُرامن ہوگا۔
بجلی قیمت میں کمی کا امکان
ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے تحت بجلی 65پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان ایک خوش گوار خبر کے طور پر لیا جارہا ہے۔ نیپرا نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جو جلد جاری ہونے کی توقع ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ کمی وقتی ریلیف تک محدود رہے گی یا توانائی کے پورے نظام میں کسی دیرپا بہتری کی بنیاد رکھے گی۔ سی پی پی اے کے مطابق اکتوبر میں پانی سے زیادہ بجلی پیدا ہونے نے فیول ایڈجسٹمنٹ پر براہِ راست مثبت اثر ڈالا۔ ہائیڈل پاور کی یہ بڑھتی ہوئی شراکت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ پاکستان کو توانائی کے دیرپا اور سستے ذرائع پر منتقل ہونا ناگزیر ہے۔ پانی سے بجلی ہمیشہ سستی رہتی ہے، لیکن اس کے لیے اسٹوریج، ڈیمز اور جدید نظام ضروری ہیں، جن پر منصوبہ بندی کی رفتارہنوز مطلوبہ رفتار سے کم ہے۔ اسی طرح اکتوبر میں طلب میں کمی کے باعث کوئلے سے کم بجلی پیدا کی گئی، جس نے مجموعی لاگت کم کرنے میں مدد دی، کیونکہ کوئلہ مہنگا ہے۔ ایندھن کی قیمتوں کا مستحکم رہنا بھی ایک مثبت عنصر تھا، جس نے رواں ماہ فیول چارجز کے دبائو کو کم رکھا۔ قابلِ ذکر بات کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال اکتوبر میں صنعتی کھپت 25فیصد بڑھ گئی، جو ملکی معیشت کے لیے ایک حوصلہ افزا اشارہ ہے۔ صنعتی سرگرمی بڑھنے کا مطلب روزگار اور پیداوار میں اضافہ ہے۔ تاہم این پی سی سی نے نشاندہی کی ہے کہ رات کے وقت بجلی کی کھپت میں 6ہزار میگاواٹ سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو توانائی کی منصوبہ بندی میں نئے چیلنج پیدا کرتا ہے۔ رات کی بڑھتی کھپت عموماً مہنگے ذرائع سے پوری کی جاتی ہے، جس کا اثر مستقبل میں صارفین کے بلوں پر پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ 65پیسے کی ممکنہ کمی ایک اچھی خبر ہے، مگر یہ بنیادی مسئلے کا حل نہیں۔ ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر آنے والی تبدیلیاں صارفین کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہیں۔ مستقل ریلیف کے لیے ضروری ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے کی جامع اصلاحات کرے۔ مقامی ذرائع سے بجلی کی پیداوار، لائن لاسز پر قابو، بجلی چوری میں کمی اور کیپسٹی پیمنٹس کے بوجھ میں کمی، یہی وہ عناصر ہیں جو بجلی کو مستقل طور پر سستا بنا سکتے ہیں۔ اصل ضرورت توانائی کے پورے ڈھانچے میں ساختی تبدیلیوں کی ہے۔ جب تک یہ اصلاحات نہیں ہوتیں، ایسے وقتی ریلیف عوام کی مشکلات کا مکمل حل ثابت نہیں ہو سکتے۔

جواب دیں

Back to top button