Ahmad NaveedColumn

یہ 11ستمبر کی صبح تھی !

تحریر : احمد نوید
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے انجیوگرافی ڈیپارٹمنٹ میں مرد اور خواتین سمیت کم و بیش 40سے 50مریضوں کو انجیوگرافی اور ای پی سٹڈیز کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ منظر حیران کن تھا۔ خواتین اور مرد اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ سب کی انجیوگرافی ہونی تھی۔ اس میں میری بیٹی عقیدت نوید بھی شامل تھی۔ اس کی ای پی سٹڈیز کا ایشو تھا۔ بالکل اس کی عمر کا ہی ایک نوجوان بھی اپنی ای پی سٹڈی کے لیے آیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمنان، ڈاکٹر عمران سلیم اور دوسرے بہت سے ڈاکٹرز اور نرسز کی ٹیم یہ کارنامہ سر انجام دے رہی تھی۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی یا کوئی دوسرا سرکاری ہاسپٹل ہو، وہاں بے تحاشہ مریضوں کی تعداد کے باوجود ہر روز علاج کے انگنت کارنامے سر انجام دئیے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایسی کامیاب کہانیاں ہیں جو شاید کہیں رقم نہیں ہو رہی ہوتیں۔ تاہم سرکاری ہسپتالوں کو گالیاں دینے کا رواج بالکل عام ہے۔ ایک بار ڈاکٹر آصف الرحمان صاحب سے جب بات ہو رہی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اور خاص طور پر پنجاب میں جتنی آبادی ہے۔ اس میں ہم جتنے بھی ہسپتال بنا لیں وہ مریضوں کی تعداد کے تناسب سے کم ہی رہیں گے۔
11ستمبر کی صبح پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کہ انجیوگرافی ڈیپارٹمنٹ میں جو گمنام ہیروز سکسیس سٹوریز رقم کر رہے تھے۔ اس محنت اور جانفشانی پر ان ڈاکٹرز کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔ کچھ ریفرنس ضرور ہوتے ہیں، جن کے حوالے سے ڈاکٹرز مریضوں کے عزیز و اقارب کو شاید جانتے ہوں۔ لیکن بیشتر مریض ایسے ہوتے ہیں، جن کی ہسٹری بیک گرائونڈ اور ان کے رشتہ داروں کو ڈاکٹرز بالکل نہیں جانتے۔ ان تمام مریضوں کا آپریشن ہو، انجیوگرافی ہو یا ای پی سٹڈیز ہو یا دیگر علاج اور پروسیجرز ہوں۔ ڈاکٹرز اپنی اسی قابلیت، توجہ ،محنت، صلاحیت اور خود اعتمادی کے ساتھ یہ تمام پروسیجرز سر انجام دیتے ہیں۔ اس بہترین پرفارمنس کے باوجود عام طور پر سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کو منفی ریمارکس کے ساتھ منفی تبصروں اور تنقید کی نظر ہونا پڑتا ہے۔
ابھی حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے پنجاب کے تمام دل کے ہسپتالوں اور چند دیگر ہسپتالوں میں بھی بچوں کی ہارٹ سرجری پروگرام کی منظوری دی ہے۔ جس کے تحت دل کے مریض بچوں کے دل کے آپریشن سر انجام دئیے جائیں گے۔ یہ کارنامے رقم کرنے والے ڈاکٹر بھی پنجاب کے سرکاری ڈاکٹر ہوں گے۔ ہر سال دل کے مریض 5ہزار سے زائد بچوں کی زندگیاں بچانے کیلئے ’’ چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام‘‘ کے تحت مفت علاج اور آپریشن کی فراہمی کا آغاز کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کچھ دن قبل ’’ چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام‘‘ کے تحت ’’ چائلڈ سرجری کارڈ‘‘ تقسیم کیے، مانیٹرنگ کیلئے بنائی گئے ڈیش بورڈ کا مشاہدہ اور چلڈرن ہسپتال کے کارڈیک سرجری وارڈ کا دورہ کیا۔ وزیر اعلی نے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، میں وزیر اعلیٰ نہیں ایک ماں کی حیثیت سے منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے بے حد خوش ہوں۔ بچے کی وفات پر مائیں جس صدمے سے گزرتی ہیں۔ میں سمجھ سکتی ہوں۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے اس موقع پریہ بھی کہا کہ اس پروگرام کے تحت خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں کے مریض بچوں کا بھی علاج ہوگا۔ انہیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر مسعود صادق نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دل کے بروقت آپریشن کی سہولت نہ ہونے سے ہر سال 5000سے زائد کم سن بچے وفات پا جاتے تھے۔100میں سے ایک بچہ دل کے مرض کے ساتھ پیدا ہورہا ہے۔ بچوں کے دل کے امراض کو پروفیسر ڈاکٹر آصف الرحمان سے زیادہ کون جان سکتا ہے جو بچوں کے دل کے امراض کے ڈاکٹر ہیں اور پی ائی سی کے او پی ڈی میں پنجاب بھر سے آنے والے دل کے مریض بچوں کو عرصہ دراز سے چیک کر رہے ہیں۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ای پی سٹڈیز جیسے معاملات ہوں یا انجیوگرافی کے لیے تاریخ چاہیے ہو۔ پنجاب میں مریضوں کی تعداد کی وجہ سے مریض کو چھ ماہ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ دو سال تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس میں ہسپتال کا کوئی قصور نہیں ڈاکٹرز کی کوئی کوتاہی نہیں۔ کوتاہی اور غفلت ہماری اپنی ہے کہ ہم اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں چند ہسپتال لاکھوں ،کروڑوں مریضوں کے علاج کے لیے ان کی من چاہی اور جلدی تاریخ کیسے دے سکتے ہیں۔ صرف ای پی سٹڈیز کے لیے ہی کم از کم چھ ماہ سے دوسال تک کی تاریخ دی جاتی ہے اور انجیو گرافی کی ڈیٹس بھی اسی طرح سے تین چھ ماہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ تمام علاج پرائیویٹ ہسپتالوں میں عام طبقے کے لوگوں کی استعداد سے بالکل باہر ہے ۔ پنجاب 15کروڑ افراد کا صوبہ ہے۔ یہاں جتنی کرپشن ہے۔ اس سے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ غریب لوگوں کی کروڑوں روپے کی انسولین اٹھا کر بیچ دی جاتی ہے۔ کسی کو دوائی نہیں ملتی۔ اس کے باوجود ای پی سٹڈیز کے لیے جس وارڈ میں میری بیٹی عقیدت نوید کو رکھا گیا۔ وہ صاف ستھرا وارڈ تھا۔ صاف ستھرا واش روم۔ سوچیں ذرا اگر ہماری آبادی کم ہوتی تو یہ سہولتیں مزید کتنی بہترین ہو سکتی تھیں۔
میں جہاں ڈاکٹر آصف الرحمان، ڈاکٹر عبدالمنان، ڈاکٹر سلیم عمران اور پنجاب کارڈیالوجی کے دیگر اہم ترین ڈاکٹرز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وہیں میری وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ، وزیراعظم پاکستان شہباز شریف صاحب اور دیگر ایسے سرمایہ دار افراد جو پنجاب کارڈیالوجی جیسے ہسپتال بنا سکتے ہیں۔ ان سے درخواست ہے کہ پنجاب کارڈیالوجی جیسے ہسپتالوں کی سب برانچزز یا مکمل پیکیج کے ساتھ نئے ہسپتال قائم کیے جائیں۔ محکمہ بہبود آبادی سے بھی درخواست ہے کہ وہ آبادی کنٹرول کرنے کے لیے جامع پروگرام تشکیل دیں۔ اس معاملے میں اسلامک سکالرز اور مختلف مکتبہ فکر، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے قدم بڑھائیں اور لوگوں کو اگاہی فراہم کریں۔ اگر ہماری شرح خواندگی کا تناسب کافی اچھا ہوتا تو یقینا کسی کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ آبادی کے بم کو پھٹنے سے روکا جائے۔ اس قوم پر احسان ہوگا جب ہر شعبہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے گا اور اس کے مطابق اس پر عمل کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button