ColumnQadir Khan

آئینی ترامیم جمہوریت کی نئی قسط

تحریر : قادر خان یوسف زئی
پاکستان میں مختلف آئینی اداروں کے درمیان تصادم اور کشیدگی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ اس کی جڑیں ملکی تاریخ کے آغاز سے لے کر آج تک نظر آتی ہیں، جس سے ملک میں جمہوری تسلسل، حکومتی نظام، اور عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔ اس مسئلے کا حل تب ہی ممکن ہے جب تمام ریاستی ادارے آئین کی من مانی تشریحات کے بجائے اس کی روح کے مطابق عمل کریں اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ آئین کسی بھی ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے جو ریاست کے تمام اداروں کی حدود اور ذمہ داریوں کو واضح کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین 1973 میں نافذ ہوا، جس میں مقننہ، عدلیہ، اور انتظامیہ کی علیحدگی کو یقینی بنایا گیا تھا تاکہ ریاست میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم ہو۔ آئین کی یہ بنیادی ترتیب اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے اور ریاستی اختیارات ایک دوسرے پر غالب نہ آئیں۔ تاہم 73ء کے آئین کی شکل مختلف ترامیم کئے جانے پر تبدیل ہوتی رہی اور اب تک25مرتبہ پاکستان کے آئین میں ترامیم کیں جاچکی ہیں۔ کیونکہ آئین آسمانی صحیفہ نہیں اس لئے اس میں ترامیم کا عمل آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حالیہ مجوزہ ترمیم حتمی ہے۔
پاکستان میں آئین کی پاسداری کے مسئلے کی جڑیں اس وقت گہری ہوتی ہیں جب ادارے اپنی ذمہ داریوں سے بڑھ کر اختیار استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اکثر اداروں کے درمیان تصادم اور کشیدگی کی صورت میں نکلتا ہے جو ملکی سیاست کو عدم استحکام کی طرف لے جاتا ہے۔ آئینی حدود کی پاسداری کا تصور یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے تاکہ کسی ادارے کو دوسرے پر غالب آنے کا موقع نہ ملے۔ مقننہ، جو قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے، کا بنیادی کام قانون سازی ہے۔ آئین کے تحت مقننہ کو قانون بنانے، بجٹ منظور کرنے، اور عوامی مسائل کے حل کے لیے قوانین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم (1974)ایک تاریخی لمحہ قرار پایا۔ بد نام زمانہ آٹھویں ترمیم(1985) کو تیرہویں ترمیم (1997)میں درست کیا گیا ۔ لیکن ایک مرتبہ پھر آمرانہ لامحدود اختیارات کے حصول کے لئے سترہویں ترمیم(2003) میں کی گئی۔ اٹھارویں ترمیم (2010)ایک اہم مرحلہ تھا جب آئین کے تبدیل شدہ حالت کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد ازاں فوجی عدالتوں کے قیام کی اکیسویں ترمیم (2015)سے لے کر آخری ترمیم(2018) فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کئے جانے تک کی ترامیم کا مقصد آئین میں اختیارات کا جائز و ناجائز حصول غالب رہا ہے ۔ عدلیہ اصلاحات کے حوالے سے مجوزہ 26ویں ترامیم کے لئے سیاسی تفہیم اور یک جہتی درکار ہے ۔ اس کے لئے فروعی سیاسی مفادات کو بالا طاق رکھنا ہوگا، بصورت دیگر جو صورتحال ابھی تک سامنے آئی ہے اسے حوصلہ افزا اور سیاسی استحکام کے لئے مثبت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
عدلیہ کا بنیادی کام قانون کی تشریح اور آئین کی حفاظت کرنا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کو آئین کا محافظ سمجھا جاتا ہے، اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ آئین کی روشنی میں قوانین کی تشریح کرے اور ان پر عمل درآمد کرائے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں، عدلیہ نے مختلف مواقع پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بعض حکومتی فیصلوں کو منسوخ کیا ہے، جس سے ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا احترام ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ عدلیہ آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنے فیصلے کرے تاکہ دوسرے اداروں میں مداخلت نہ ہو۔ عدلیہ کے ذریعے آئین کی من مانی تشریحات ادارہ جاتی کشیدگی کو بڑھا دیتی ہیں، جس سے ریاست میں بے یقینی اور عدم استحکام پیدا ہوا ہے اگر آئینی عدالتوں کے قیام پر سیاسی ہم آہنگی اور متفقہ لائحہ عمل بن جاتا ہے تو اس اہم معاملے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا پھر اپنے فروعی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی مختلف وجوہ ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم وجہ آئینی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ جب ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں تو ادارہ جاتی تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، سیاسی مفادات کی بنیاد پر اداروں کے درمیان اختلافات بھی تصادم کو بڑھا دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اکثر اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، جس سے ادارہ جاتی تنازعات جنم لیتے ہیں۔ عدلیہ، اسٹیبلمشنٹ، اور مقننہ کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا ریاستی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ذاتی مفادات، کرپشن، اور بدانتظامی بھی اداروں کے درمیان تصادم کا باعث بنتی ہیں۔
آئینی تصادم سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے آئین کی روح کے مطابق عمل کریں۔ آئین کسی ایک ادارے کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ تمام اداروں کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے اور دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔ آئین کی من مانی تشریح کرنے سے اداروں کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ آئینی روح کے مطابق عمل کا مطلب یہ ہے کہ ادارے اپنی حدود کو پہچانیں اور ایک دوسرے کے اختیارات کا احترام کریں۔ مقننہ قانون سازی کرے، عدلیہ قانون کی تشریح کرے، اور انتظامیہ عوامی فلاح کے لیے اپنے فرائض انجام دے۔ آئینی بحران کا ایک اہم سبب عوام کی آئین کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔ آئین کو صرف ریاستی اداروں کے افراد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عوام کو بھی اس کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے حقوق اور ریاستی اداروں کی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی نصاب میں آئین کی اہمیت کو شامل کیا جائے اور میڈیا کے ذریعے عوام کو آئینی معاملات کی آگاہی دی جائے۔ اداروں میں تصادم کو ختم کرنے کے لیے سیاسی قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
سیاسی قیادت اکثر اداروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے بجائے انہیں بڑھاوا دیتی ہے، جس سے تصادم مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ انہیں اپنی سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر آئین کی پاسداری کرنی اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ اداروں کے درمیان تصادم اور کشیدگی کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب تمام ریاستی ادارے آئین کی مکمل پاسداری کریں اور اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں۔ عوامی آگاہی، تعلیم، اور سیاسی قیادت کے کردار سے یہ ممکن ہے کہ ادارے آئین کی روح کے مطابق عمل کریں اور ریاست میں استحکام پیدا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button