آئینی ترمیم کیلئے درکار نمبرز
تحریر : تجمل حسین ہاشمی
حکومت اور ان کے اتحادیوں کو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دونوں ایوانوں سینیٹ و قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ تاہم ایک اتحادی رہنما کے مطابق حکومت کے پاس آئینی ترمیم کو منظور کرانے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے درکار نمبر اہم ہیں کیوں کہ یہ بھی آئین ہی کہتا ہے کہ اتنے نمبر ہونے چاہئیں ۔ آئین میں 1973ء سے اب تک 25مرتبہ ترامیم کی جا چکی ہیں۔ جو عرصہ ہم گزار چکے ہیں وہ 76سالوں پر محیط ہے ۔ آئین میں جو بھی تبدیلی کی گئی عوامی بہبود، اس کی فلاح و ترقی اور ملکی سلامتی کے پیش نظر ہوئی۔ ہماری چار نسلیں گزار چکی ہیں لیکن جس عوامی مقصد کیلئے اسمبلی آئین کو تبدیل کرتی رہی وہ تو کبھی پورا نہیں ہوا۔ آج بھی غریب سرکاری ہسپتال کے فرش پر اپنا علاج کرانے پر مجبور ہے۔ سرکاری تعلیمی نظام بک چکا ہے۔ پورا ملک کھنڈر بن چکا ہے۔ ملک کو دوہرے نظام کے تحت چلا رہے ہیں۔ تفریق و تقسیم میں اضافہ ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ترمیم نے سیاست دانوں میں ہلچل مچائی ہوئی تھی۔ حکومت کا موقف ہے اس ترمیم سے عدالتوں میں فیصلوں کو پر لگ جائیں گے۔ فیصلوں میں جلدی کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو سنانا اور میرٹ پر فیصلہ کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اب اس آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224ووٹ اور 64ووٹ سینیٹ میں درکار ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214ارکان کی حمایت ہے، دو تہائی اکثریت کے لیے مزید 10ووٹ درکار ہیں۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ آئینی نمبروں کو پورا کرنے کے لیے حکومت اور اتحادی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ مولانا کے پاس قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ ارکان ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمان صاحب کی پارٹی اس آئینی ترمیم کی حمایت کر دیتی ہے تو پھر بھی حکومت کو مزید تین یا چار ووٹ کے لیے کوشش کرنی ہو گی، جن سے متعلق حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان بتانے سے گریزاں ہیں۔ حکومت کے پاس ابھی مطلوبہ نمبر پورے نہیں ہوئے، اس لیے قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت بار بار تبدیل کیا گیا۔ اور اب تو واضح طور پر حکمران اتحاد اس بل کے حوالے سے بیک فٹ پر چلا گیا ہے ۔ اس ڈرافٹ کے حوالے سے اتحادی بھی لا علم ہونے کی باتیں کرتے رہے۔ ہمارے ہاں ججز کی تعیناتی سے متعلق جاری نظام میں جوڈیشل کونسل کسی بھی شخص کو ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کی منظوری دیتی ہے۔ اس کی حتمی منظوری کے لیے اپر کورٹس میں تعیناتی سے متعلق بنائی کی گئی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جاتا ہے۔ کمیٹی کے ارکان نے متعدد بار اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس ضمن میں ان کا کردار ربڑ سٹمپ کے برابر ہے، کیونکہ اگر وہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی شخص کے نام پر اعتراض کرتے ہیں تو انہیں تحریری طور پر کمیشن کو اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ثبوت بھی دینا پڑیں گے۔ اس آئینی ترمیم جس کو حکومت کو موخر کرنا پڑا اس کی بنیادی وجہ نمبرز کی کمی رہی۔ مولانا فضل الرحمان کے ثابت قدمی سے ان کی سیاسی ساکھ کو تقویت ملی ہے۔ بظاہر قوم کے بڑے حصہ کو اس آئینی ترمیم میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی ان کو اس حوالے سے کوئی خاص علم ہے۔ مسودہ بھی سرکاری طور پر سامنے نہیں آیا۔ کئی دن تک اس آئینی تبدیلی کے حوالے سے حکومتی ارکان بھی لا علمی کا اظہار کرتے میڈیا پر نظر آئے۔ اس آئینی ترمیم کے مسودہ سے متعلق میڈیا بھی بلیک آئوٹ رہا۔ وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے قوم
کو عدالتوں سے جلدی انصاف مہیا ہو گا۔ جناب بھول گے ہیں کہ قوم پچھلے 76سال سے انصاف مانگ رہی ہے لیکن انصاف صرف حکومتی ایوانوں اور طاقتور کے محلات تک محدود ہو چکا ہے۔ بظاہر قوم کو اس ترمیم سے عدالتی نظام میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے ان کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کے خیال میں صرف ذاتی مفادات کی پرورش ہو رہی ہے۔ مولانا کا اپنی بات پر پکا رہنے سے حکومت کو اس بل سے پچھلے ہٹنا پڑا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب نے انٹر نیشنل میڈیا کو بتایا کہ حکومت کے بہت سے حساس معاملات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ایسے حالات میں آئینی پیکیج لانے سے ملک میں حالات معمول پر آنے کی بجائے مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ واضح رہے کہ دوسری طرف پاکستان کے موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ ’’ پرسن سپیسیفک‘‘ قانون سازی کے حق میں نہیں ہیں۔ تمام کوششوں کے بعد حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا۔ ترمیم تو موخر ہو گی لیکن آنے والے دنوں میں حکومت کو حکومت چلانا مشکل ہو گی، اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف کی بھر پور کوشش ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنمائوں کے ساتھ مضبوط الحاق میں چلا جائے، فی الحال اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے۔ اگلے چند ماہ سیاسی حوالے سے گرم رہیں گے۔ معاشی صورتحال میں بہتری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہیں لیکن ماضی میں کیے گے معاہدوں نے عوام کو تنگ کر دیا ہے۔ بے روزگاری مہنگائی نے معاشرہ کی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں اس طرح کی آئینی ترمیم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ شہباز اتحادیوں کو واضح ہوگا۔ آنے والے چند مہینوں میں حکمران اتحاد بھی خطرہ میں ہو گا۔ ترمیم نے حکومت کے ان عزائم کا پردہ چاک کیا جو کس صورت ملکی مفاد میں نہیں تھے ۔ ایک ایسا آئینی بحران پیدا ہونا کا خدشہ تھا۔