ColumnTajamul Hussain Hashmi

پاکستان کبھی ترقی پذیر ممالک کا لیڈر تھا

پاکستان کبھی ترقی پذیر ممالک کا لیڈر تھا

 

تجمل حسین ہاشمی

امریکی سفارتکار نے بڑا انکشاف کیا اس کا کہنا تھا کہ اکثر سفارتکار بیٹھ کر باتیں کرتے تھے کہ 20سال بعد کراچی زیادہ ترقی یافتہ ہو گا یا پھر لندن اور نیو یارک، اس سفارتکار کا کہنا تھا کہ کراچی شہر اس دور کا ماڈرن اور ترقی کی طرف برتا ہوا شہر تھا۔ دنیا بھر میں پاکستان کو عزت اور توقیر سے دیکھا جاتا تھا پھر پاکستان کو نظر لگ گی۔ سفارتکار کا کہنا تھا کہ 1960ء کی دہائی میں بھارت پاکستان سے کہیں پیچھے تھا، بھارتی سفیروں کو اپنی اسناد سفارت پیش کرنے کے لیے کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا لیکن آج حالت اس سے بالکل مختلف الٹ ہے۔ ( کتاب زیرو پوائنٹ 5)۔ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ شاید اپ کو یاد ہو کہ کوریا کے دانشور، سیاست دانوں ہمارے ہاں آ کر ترقی کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔ ملائشیا، انڈونیشیا کی ایلیٹ کلاس کے بچے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے اور واپس جا کر پاکستان کی مثالیں دیتے تھے، آپ لوگوں کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 60ء کی دہائی میں چین نے پاکستان سے تین ہوائی جہاز خریدے تھے اور ان میں سے ایک جہاز چین کے بانی ماوزے تنگ استعمال کرتے تھے۔ پی آئی اے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی، سویت یونین ایک طویل عرصے تک پاکستان کو اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے بھی تاب میں تھا، چین پاکستان کو اپنا دروازہ کہتا تھا، امریکہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر اس خطے کے کسی دوسرے ملک کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتا تھا۔ ہم ہر لحاظ سے بھارت سے آگے تھے۔ ہمارے کھیت بھارتی کھیتوں سے زیادہ پیداوار دیتے تھے۔ ہمارے کسان مضبوط اور خوشحال تھے۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تھا۔ اس وقت بھارت کو بجلی کی فروخت کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں سے پیاز، لہسن، گندم، دال سمگل ہو کر انڈیا جاتی تھی، سٹیل ملز جیسے کئی طاقتور ادارے موجود تھے۔
آج ان کی حالت سب کے سامنے ہے، کون ذمہ دار ہے، اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا، ایک دوسرے کو غدار، کتا کہا گیا، پھر جنرل ایوب خان تھک گئے اور اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ان گزارے 40سال میں ملک کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جس کا کبھی گمان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سب دعوے ، گمان مٹی ہو گئے ، جو بھارت کبھی حسرت بھری نظروں سے پاکستان کو دیکھتا تھا۔ ان کا وزیر اعظم، صدر 2009ء میں جی ٹونٹی ممالک کے سربراہان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بارک اوبامہ، برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر، جاپانی وزیراعظم کے ساتھ بیٹھا گیپ لگا رہا تھا اور اسی دوران ہمارے صدر صاحب افغانستان کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، جس صدر کی حکومت کابل کے دس مربع کلو میٹر کے ریڈ زون تک محدود تھی۔ ان چالیس سال میں بھارت زمین سے اٹھ کر جی ٹونٹی کلب میں شامل ہو گیا۔ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے ملک کے ساتھ وہ کیا ہمارے دشمن کو کرنے کی ضرورت نہیں پڑی اور آج بھی سیاسی جماعتیں، فیصلہ ساز اور طاقتور حلقے اسی ڈگر پر ہیں، جس سے ملکی ترقی کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔
پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جن کے وعدے ، قسمیں اور معاہدے قرآن و سنت کی طرح مقدس ہوں۔ ہم نے نا اہل بندے ملک پر مسلط کئے، ابھی بھی جان بخشی نہیں ہوئی، سلسلہ جاری ہے ، ملکی نظام کی تباہی کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا کر بخشی حاصل کی جاتی رہی، لیکن نا لائق ترین ، بے ایمان ترین اور تعلیم سے نا بلد لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھایا گیا، سیاسی بھرتیوں کا دروازہ کھولا گیا۔ ہمارا سرکاری دفتری نظام دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ ترین نظام ہے، جس کام کو خراب یا روکنا مقصود ہو اس کو کسی سرکاری محکمہ یا سرکاری ملازم کے ذمہ لگا دیں، وہ چند گھنٹوں میں شیر کو بلی بنا کر آپ کی گود میں بیٹھا دے گا، یہی طاقت والے مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ سب بلی بن جائیں ، ہم مزے کریں، ہمارے بچے باہر رہیں۔ ہمارے سیاست دان ، تجزیہ نگار اور معیشت دان یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ جمہوری نظام کو چلنے دیں، ویسے پیچھے کئی سال سے جمہوری نظام ہی تو ہے لیکن جمہوریت والوں میں تسلیم کرنے کی ہمت نہیں رہی، لوٹ مار نے ان کی ہمت ختم کر دی ہے۔ سچ کا حوصلہ ختم ہو چکا ہے۔ جتنا نقصان ماضی کے ان 40 سال میں پہنچا دیا گیا ہے یہ اسی صورت پورا ہو گا جب سیاست دان اور مقتدر حلقے اپنے وعدے ، معاہدوں کو مقدس سمجھ لیں، آج سرکاری عہدوں پر ان افراد کو بیٹھا دیا گیا ہے جن کو پاکستان کے سرکاری نام معلوم نہیں، پاکستان ہے یا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ہمارے ہاں سارے کام الٹ ہوتے ہیں، گندم کی کٹائی کا وقت پر امپورٹ کر لیتے ہیں، گنے کی کرشنگ کے وقت چینی شارٹ ہو جاتی ہے، امپورٹ دھندہ بن چکا ہے۔ گرمیاں ہوں تو بجلی کی مرمت کا کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، محکمہ خزانہ کے لیے بندے امپورٹ کئے جاتے ہیں، وزیر اعظم کیلئے بھی ایسی ہی صورتحال ہے ، ابھی کی سرکاری لاٹ میں کسی کو کوئی کام نہیں آتا، ان کو سرکاری خط و خطابت بھی نہیں آتی، ان 40سال میں کیا کارنامہ سر انجام دیا ، ایک واحد فوج ہے جو ملک سلامتی اس کے تحفظ کیلئے دن رات کام کر رہی، آج اسی پر تنقید ہے ، یہی ہمارے کرتا دھرتا چاہتے ہیں۔ کوئی طاقتور نہ رہے ہم ہی ہر سو ہوں۔
سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہو گا اس طرح اب نظام چلنے والا نہیں ہے، دوسرے کے کندھوں پر اپنی ذمہ داری ڈالنے والا پرانا دور نہیں رہا، ایسے ترقی نہیں ہو گی، مزید ترقی پذیر ہوتے جائیں گے، قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور سرکاری اداروں کے سربراہان کو اپنے حلف کے تقدس کو مقدس سمجھنا ہو گا۔ حکمران قوم کا اثاثہ ہیں، خود کو اثاثہ ثابت کرنا ہو گا، تیز رفتاری کا وقت آن پہنچا ہے، اس وقت جھوٹے بیانیوں اور قانون کے بے جا استعمال سے ٹھیک یا روکا نہیں جا سکتا۔ اس کیلئے عوامی ووٹ کا احترام کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button