مقدس گائے کوئی بھی نہیں
مقدس گائے کوئی بھی نہیں
صفدر علی حیدری
پاکستان کی ریاست ایک طویل عرصے سے ایک ہی سوال کے گرد گھوم رہی ہے
طاقت کس کے پاس ہے؟
آئین کہتا ہے: عوام کے پاس۔
عمل کہتا ہے: کہیں اور۔
یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے۔
فیصلہ ہوتا ہے کہ کون حکومت میں آئے گا، کون جائے گا، کون بڑھے گا، کون گرے گا، اور کس کو ’ مقدس‘ سمجھا جائے گا ، چاہے غلط ہو، چاہے صحیح۔
مگر تاریخ آگے بڑھتی رہتی ہے۔
اور کچھ لمحات تاریخ میں ایسے آتے ہیں جو ریاست کے حاشیے پر لکھی ہوئی عبارت کو اچانک ایک نئے سرے سے لکھ دیتے ہیں۔
فیض حمید کو 14سال قید ، یہی ایک ایسا لمحہ ہے۔
اس فیصلے نے چند بنیادی سوالات کو زندہ کیا ہے:
کیا پاکستان میں طاقتور طبقہ بھی احتساب کے دائرے میں آئے گا؟
کیا ریاست واقعی بدل رہی ہے یا یہ صرف ایک سیاسی کھیل ہے؟
کیا اس فیصلے کے بعد وہ تمام عسکری شخصیات بھی قانون کی گرفت میں آئیں گی جنہوں نے ماضی میں اور اب بھی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی؟
کیا پاکستان واقعی اس خواب کی طرف بڑھ سکتا ہے کہ ’’ مقدس گائے کوئی نہیں؟ ‘‘۔
اس پوری کہانی کو ایک ایک پرت کھولتے ہیں۔
1۔ پاکستان کا اصل مسئلہ ، طاقت کا توازن نہیں، طاقت کا بگاڑ
پاکستان کے قیام سے آج تک طاقت کا مرکز کبھی پارلیمنٹ میں نہیں رہا۔ یہ حقیقت تلخ ضرور ہے، لیکن جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ ملک کی تاریخ ایک مسلسل چکر ہے، کبھی حکومت ہٹائی گئی، کبھی بنائی گئی، کبھی جماعت بدلی گئی، کبھی تھپڑ مار کے سیدھا کیا گیا، کبھی انجینئرنگ ہوئی، کبھی محب وطن ڈکلیئر ہوئے، کبھی غدار ڈکلیئر ہوئے اور یہ سب کچھ ایک ایسے خاموش دائرے کے اندر ہوتا رہا، جسے لوگ پنڈی کہتے ہیں، جسے ریاست قومی سلامتی کہہ کر بیان کرتی ہے، اور جسے سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کہتی ہیں۔ جب ایک ادارہ ملک کے سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے، تو پھر یہ طے ہے: سیاست دان مضبوط نہیں رہتے، سیاسی جماعتیں مستقل مزاج نہیں بنتیں، ادارے مستحکم نہیں رہتے، معیشت پائیدار نہیں ہوتی، اور ریاست ہمیشہ غیر یقینی میں چلتی ہے۔ یہی پاکستان کا بنیادی بحران ہے۔
2۔ اگر فوج سیاست سے الگ ہو جائے
یہ وہ بات ہے جس پر اس ملک کا ہر سنجیدہ شہری متفق ہے: اگر فوج اپنی آئینی حدود میں واپس چلی جائے تو ملک کے 90فیصد مسائل حل ہو جائیں۔
وجہ کیا ہے؟
کیونکہ ریاست تب چلتی ہے جب حکومت پانچ سال پورے کرے، پالیسی تسلسل میں ہو، فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں،طاقت عوامی مینڈیٹ میں ہو، ادارے ایک دوسرے کی حدود کا احترام کریں، لیکن جب ’ اشارے‘ حکومت بناتے ہیں، تو سیاست کمزور ہوتی ہے۔ جب ’ حمایت‘ حکومت گراتی ہے، تو معیشت ٹوٹتی ہے۔ اور جب ’ سازش‘ سیاسی نقشہ بدلتی ہے، تو قوم تقسیم ہوتی ہے۔ پاکستان میں جو بھی بحران بنا، چاہے وہ 1977ء کا ہو،1988 ء کا ہو،1999 ء کا ہو ، 2007ء کا ہو، یا 2022ء کا، ایک نہ ایک شکل میں طاقت کا بگاڑ سامنے آیا۔ اور جب تک طاقت کا یہ بگاڑ ختم نہیں ہوگا، نہ سیاست مضبوط ہوگی، نہ معیشت، نہ ادارے، نہ ریاست۔
3۔ اب اصل سوال، کیا صرف ایک شخص پر کارروائی کافی ہے؟
فیض حمید کی سزا ایک اہم پیش رفت ہے۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو عوام پوچھ رہے ہیں، جو صحافی پوچھ رہے ہیں، جو سیاستدان پوچھ رہے ہیں، اور جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں فکرمند لوگ پوچھ رہے ہیں۔کیونکہ اگر ایک ہی شخص کو سزا دی گئی اور باقی سب جو سیاست پر اثر انداز ہوتے رہے، جو حکومتیں بناتے اور گراتے رہے، جو جماعتیں توڑتے اور جوڑتے رہے، جو میڈیا ڈراتے رہے، اور جو سیاست دانوں کو ’ غیر ضروری‘ اور ’ ضروری‘ ثابت کرتے رہے، اگر ان سب کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، تو پھر یہ فیصلہ بھی صرف ایک ’ سیاسی دائو‘ بن کر رہ جائے گا۔ یہاں مسئلہ ایک شخص نہیں، مسئلہ وہ پوری سوچ ہے جو خود کو ریاست کے اوپر سمجھتی ہے۔
4۔ کیا باقی عسکری شخصیات پر کارروائی ہو سکتی ہے؟
یہ سوال بہت بڑا ہے، اور اس کا جواب سیدھا بھی ہے، اور پیچیدہ بھی۔ سیدھا جواب: جی ہاں، اگر فیض حمید کے کیس کو ٹیسٹ کیس سمجھا جائے، تو باقی تمام افراد جو سیاست میں ملوث رہے ہیں، جو اختیارات سے تجاوز کرتے رہے ہیں،جو اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں، انہیں بھی کٹہرے میں آنا چاہیے۔ قانون کا تقاضا تو یہی ہے۔
پیچیدہ جواب : پاکستان میں طاقت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ ریاست میں بہت سے ’ ناقابلِ چھوا‘ عناصر موجود رہے ہیں۔وہ لوگ جنہیں کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ جن کا احتساب ریاستی مفاد کے نام پر روک دیا جاتا تھا۔ جنہیں قومی سلامتی کی آڑ میں تحفظ مل جاتا تھا۔ اگر واقعی ملک بدلنا ہے، تو ضروری ہے کہ جو بھی شخص ’ کبھی بھی‘ کسی بھی حیثیت سے، سیاست میں مداخلت کرتا رہا ہے، اسے قانون کے سامنی آنا چاہیے۔ چاہے وہ سابق آرمی چیف ہوں، چاہے DG ISI ہوں، چاہے کور کمانڈر ہوں، چاہے کوئی بھی بڑا عسکری عہدہ رکھنے والا ہو۔ ورنہ کہانی ادھوری رہ جائے گی۔
5۔ کیا یہ سیاسی انتقام ہے؟ یا حقیقی احتساب؟
یہ بات قوم بھی پوچھ رہی ہے، میڈیا بھی پوچھ رہا ہے، اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ اس کا جواب دو حصوں میں ہے: اگر یہ احتساب ہے تو پھر باقی تمام افراد بھی قانون کے سامنے آنے چاہئیں۔ احتساب صرف وہاں سچا ہوتا ہے جہاں سب پر یکساں قانون ہو، سب کو ایک جیسا حقِ دفاع ملے، صرف کمزور پکڑے نہ جائیں، صرف چنے ہوئے لوگوں کو نشانِ عبرت نہ بنایا جائے، طاقت کا استعمال انصاف کے تابع ہو، اگر یہ اصول پورے ہوں تو یہ فیصلہ تاریخ کا سنگ میل ہوگا۔ اگر یہ سیاسی انتقام ہے تو پھر یہ فیصلہ صرف ایک علامتی سزا ہوگا، جو سیاسی ماحول کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس صورت میں نہ صرف جمہوریت کمزور ہوگی، بلکہ ریاست مزید تقسیم ہو جائے گی۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ فیض حمید پر کارروائی کا معاملہ اچانک سامنے نہیں آیا، بلکہ یہ طویل عرصے کے عوامی شعور اور میڈیا کی بے باک رپورٹنگ کا نتیجہ ہے۔ پچھلے چند برسوں میں، سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی نے سیاست میں غیر آئینی مداخلت کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی ہے۔ لہٰذا، یہ دراصل ریاست اور عوام کے درمیان کشمکش کا عکاس ہے، جہاں عوام اب اپنی منتخب کردہ حکومتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے زیادہ تیار ہیں۔ اس عوامی دبائو کو ہی حقیقی احتساب کا سب سے بڑا محرک بننا چاہیے۔ اس لیے اصل بات نیت نہیں، اصل بات تسلسل ہے۔ اگر یہ کارروائی آگے بڑھے، اور تمام سیاست کرنے والے عسکری چہرے قانون کے سامنے آئیں، تو پھر یہ فیصلہ قابلِ ستائش بھی ہوگا اور تاریخی بھی۔
6۔ مستقبل کا راستہ، ریاست کب بدلے گی؟
ریاست اس دن بدلے گی جب سیاست عوام کے ووٹ سے چلے، فوج سیکیورٹی تک محدود ہو، عدلیہ آزاد ہو، پارلیمنٹ خود مختار ہو، میڈیا آزاد ہو، ادارے ایک دوسرے کی حدود میں رہیں اور سب سے اہم، جب یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ ’’ مقدس گائے کوئی نہیں‘‘، نہ سیاستدان، نہ جج، نہ جرنیل، نہ افسر، نہ میڈیا کا مالک، نہ سرمایہ دار، نہ مذہبی رہنما، اگر قانون سب کے لیے ہے، تو پھر قانون سب کے لیے ہونا چاہیے۔
7۔ قوم کی اصل امید
ٹیسٹ کیس مکمل ہو، انتخابی کیس نہ بنے، فیض حمید کا معاملہ اگر واقعی ایک ٹیسٹ کیس ہے، تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ سیاست میں مداخلت کرنے والے تمام لوگ سامنے آئیں، بیرونی اثر و رسوخ ختم ہو، اداروں کی حدود واضح ہوں، طاقت کے مراکز شفاف ہوں، جمہوری عمل میں کوئی انجینئرنگ نہ ہو، سیاسی جماعتیں اپنے فیصلے خود کریں،حکومتیں اپنی مدت پوری کریں، عوام کے ووٹ کا احترام ہو، اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے، وہ دور جس میں ریاست اپنے شہریوں کو جواب دہ ہو، نہ کہ شہری ریاست کے ڈھانچے کے غلام بنیں۔
اختتام
آئین کی حکمرانی یا طاقت کی حکمرانی؟
طاقت کا سر چشمہ صرف آئین ہے، اور آئین میں کسی بھی ’ فوجی حکمرانی‘ کا تصور موجود نہیں۔ پاکستان کا آئین، خاص طور پر آرٹیکل 5( آئین سے وفاداری اور قانون کی اطاعت) اور آرٹیکل 245( فوج کے ملک کے دفاع کی ذمہ داری) بالکل واضح کرتا ہے کہ تمام ریاستی ادارے پارلیمنٹ کی بالادستی کے پابند ہیں۔ سیاست میں مداخلت آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے، نہ کہ قومی مفاد کی کوئی قانونی تشریح۔ فیض حمید کا فیصلہ دراصل اسی آئینی برتری کا عملی مظاہرہ بننا چاہیے، جو دکھائے کہ ملک آئینی خطوط پر چلنے کے لیے تیار ہے۔
آخر میں بات صرف اتنی ہے: پاکستان دو راستوں پر کھڑا ہے
آئین کی حکمرانی یا طاقت کی حکمرانی
فیصلہ جو بھی ہو، تاریخ دیکھ رہی ہے۔
اگر ہم واقعی مستقبل بدلنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ ماننا ہوگا کہ مقدس گائے کوئی نہیں، صرف آئین مقدس ہے۔







