بھارتی کرنل پروہت سے پاکستانی سابقہ جنرل فیض حمید تک

بھارتی کرنل پروہت سے پاکستانی سابقہ جنرل فیض حمید تک
روشن لعل
پاکستان کے سابقہ انٹیلی جنس چیف اور سابقہ تھری سٹار جنرل فیض حمید کو اختیارات کے ناجائز استعمال سمیت دیگر الزامات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے دی گئی 14برس سخت سزا کے فیصلے کو ملکی و غیر ملکی میڈیا نے مورخہ 11۔12۔25کی اہم خبر کے طور پر نشر کیا۔ فیض حمید، جو حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے آئی ایس آئی کے سربراہ مقرر ہونے کے بعد کور کمانڈر بنائے گئے تھے، انہیں کچھ برس پہلے تک ملک کا ایسا طاقتور انسان سمجھا جاتا تھا جو کسی کی بھی قسمت سنوار یا بگاڑ سکتا ہو۔ ’’ ہر عروج کو زوال ہے‘‘ کہاوت کے مصداق، جب فیض حمید صاحب کی طاقت روبہ زوال ہوئی تو وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کی مدت پوری ہونے سے پہلے اسے چھوڑنے پر مجبور ہونے کے بعد ریٹائر جنرل بن گئے۔ اب فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد شاید ریٹائرڈ جنرل کی بجائے انہیں سابقہ جنرل کہنے پر اصرار کیا جائے ۔ سابقہ جنرل فیض حمید کے عروج کو زوال میں تبدیل ہوتے دیکھ کر اگرچہ ’’ ہر عروج کو زوال ہے ‘‘ کی کہاوت سچ ثابت ہوتی محسوس ہو رہی ہے مگر یاد رہے کہ یہ آدھی کہاوت اس طرح مکمل ہوتی ہے کہ’’ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کے بعد عروج بھی آتا ہے‘‘۔ ہمارے سابقہ جنرل کے عروج و زوال کی کہانی آئندہ کون سے موڑ لے کر کہاں ختم ہو گی اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن فی الوقت یہ ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے جس حاضر سروس کرنل کے عروج کو زوال آیا وہ اب کس حال میں ہے۔
بھارتی کرنل شری کانٹ ،پرشاد ، پروہت ، اپنے ملک کا ایک معروف فوجی افسر ہے۔ پروہت نے لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت سے سال 2002ء سے 2005ء تک کشمیر میں بھارتی فوج کے انسداد دہشت گردی یونٹ میں کام کیا۔ بعد ازاں اسے بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے پونا یونٹ میں تعینات کر دیا گیا ۔ پروہت ، کوممبئی پولیس کے اینٹی ٹریرازم سکواڈ نے سال 2008ء میں مالیگائوں کے مسلمانوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا جب وہ ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی میں اہم افسر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ کرنل پروہت پر یہ الزام تھا کہ اس نے حاضر سروس فوجی افسر ہونے کے باوجود نہ صرف مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والی ابھینو بھارت نام کی تنظیم قائم کرنے میں ریٹائرڈ بھارتی میجر رمیش اپادھے کا ساتھ دیا بلکہ اس تنظیم کو دھماکہ خیز مواد بھی فراہم کیا جس کے لوگوں نے پہلے 2006ء اور پھر 2008ء میں مالیگائوں میں بم نصب کر کے کی گئی دہشت گردی سے کئی مسلمانوں کو شہید اور زخمی کیا۔ اینٹی ٹیررازم سکواڈ ممبئی پولیس کے جس افسر نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں کرنل شری کانت پرشاد پروہت کو مالیگائوں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا اس کا نام ہیمنٹ کلمکر کر کرے تھا۔ پولیس کے لیے ایک حاضر سروس فوجی افسر کو گرفتار کرنا کسی بھی ملک میں آسان کام نہیں ہو سکتا، اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ہیمنت کرکرے نے کرنل پروہت کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تو اس کے پاس کس قدر ٹھوس ثبوت ہونگے۔ ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں ایسی 37آڈیو ٹیپس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جن میں سادہوی پرگیا ( جو بعد ازاں بھوپال سے لوک سبھا کی رکن منتخب ہوئی) اور کرنل پروہت کو مالیگائوں دہشت گردی کا منصوبہ بناتے ہوئے سنا جاسکتا تھا۔ ہیمنت کرکرے نے کرنل پروہت کے خلاف اسی طرح کے کچھ دیگر ثبوت بھی اکٹھے کیے تھے۔ ممبیی اینٹی ٹیررازم سکواڈ نے جب کرنل پروہت کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا اس وقت بھارت میں کانگریس کے وزیر اعظم من موہن کی سنگھ کی پہلی حکومت تھی۔ من موہن سنگھ کی دوسری حکومت بننے کے بعد بھی کرنل پروہت جیل میں رہامگر اس دوران سادہوی پرگیا 2010ء میں جھوٹی میڈیکل رپورٹوں میں خود کو بریسٹ کینسر کا مریض ظاہر کر کے ضمانت کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ ستمبر 2008 ء میں مالیگائوں دہشت گردی کے بعد اسی برس نومبر میں ممبئی کی دہشت گردی کا واقعہ بھی رونما ہوا، اس دہشت گردی کا الزام پاکستان سے بھارت جانے والے دہشت گردوں پر عائد ہوا اور اسی الزام میں بعد ازاں اجمل قصاب کو پھانسی دی گئی۔ ممبئی حملوں کے دوران اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے اینٹی ٹیررازم سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے بھی ہلاک ہوا۔ کرنل پروہت کو گرفتار کرنے والے ہیمنت کرکرے کی ہلاکت کے ضمن میں ظاہر تو یہ کیا گیا کہ اسے دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا مگر پوسٹ مارٹم کے دوران یہ سامنے آیا کہ اس لگنے والی گولی ان گولیوں سے مختلف تھی جنہیں ممبئی حملے کے دوران دہشت گرد استعمال کر رہے تھے۔ دہشت گردوں کے زیر استعمال گولیوں کی بجائے ایک مختلف گولی سے ہیمنت کرکرے کی ہلاکت کی وجہ سے اس کی موت کو مقامی لوگوں کی سازش کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ ہیمنت کرکرے کی موت کو ساز ش قرار دینے والوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ اسے دہشت گردوں کے مقابلے کے دوران جان بوجھ کر ناقص بلٹ پروف جیکٹ دی گئی تھی ، اس بلٹ پروف جیکٹ کا فرانزک ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ کیے جانے کے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ ہیمنت کرکرے کے پوسٹ مارٹم کے دوران اس کے جسم سے اتاری گئی جیکٹ ہسپتال سے غائب ہو چکی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بھارتی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کے آفیسر کرنل پروہت کو ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر گرفتار کرنے والے ہیمنت کرکرے اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد پروہت کی عدالت سے ضمانت ممکن بنائی گئی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کرنل پروہت کی جس بیان کے بعد اس کی ضمانت منظور کی اس میں کہا گیا تھا کہ اس نے ابھینو بھارت نامی تنظیم کے اجلاسوں میں اپنے افسران بالا کے آرڈر کے تحت جاسوسی کی غرض سے اپنی اصل شناخت چھپاتے ہوئے تنظیم کا رکن بن کر شرکت کی تھی، لہذا ملٹری کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈسپلن پر عمل کرتے ہوئے اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس کے لیے ذمہ وہ خود نہیں بلکہ اسے آرڈر دینے والے اس کے افسر ہیں ۔ پروہت کے اس بیان کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے اس کے فوجی افسران کو کسی انکوائری کا حصہ بنانے کی بجائے لوئر کورٹ اور ہائیکورٹ سے مسترد ہونے والی اس کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ اس کے بعد ممبئی ہائیکورٹ نے کرنل پروہت کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اسے بری کر دیا۔ کرنل پروہت کی بریت کے بعد اسے ملٹری انٹیلی جنس میں تمام اعزازت کے ساتھ بحال کر دیا گیا۔ یوں کرنل پروہت کے معاملے میں یہ کہاوت مکمل طور پر سچ ثابت ہو گئی کہ’’ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کے بعد عروج بھی آتا ہے‘‘۔
سابقہ جنرل فیض حمید کے پاس فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے سزا کے بعد اپیل کا حق موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کے عروج کو تو زوال آچکا لیکن کیا کہاوت کے مطابق زوال کو دوبارہ عروج نصیب ہو پائے گا ؟ ۔







