ضمیر کی آواز اور عالمی احتساب
ضمیر کی آواز اور عالمی احتساب
شہرِ خواب
صفدر علی حیدری
دنیا بھر میں 9دسمبر کو انسدادِ بد عنوانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کرپشن کے خلاف جنگ کسی ایک دن کی مرہونِ منت ہے؟ یا یہ قوموں کے اخلاق، اداروں کی شفافیت اور ریاست کی مستقبل بینی کا نام ہے؟بد عنوانی وہ دیمک ہے جو ریاستوں کی بنیادیں چاٹ جاتی ہے۔ قومیں جغرافیے سے نہیں، اداروں سے جیتتی ہیں اور ادارے شفافیت سے۔ جن معاشروں میں کرپشن نظام کا لازمی حصہ بن جائے، وہاں ترقی، انصاف، شہری اعتماد اور معاشی استحکام سب ایک خام خیالی بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں گڈ گورننس کی بحث کا سب سے بڑا ستون ’ کرپشن کا خاتمہ‘ ہے۔
بد عنوانی: ایک لفظ نہیں، کئی جہتیں۔
کرپشن صرف رشوت لینے دینے کا نام نہیں۔ یہ کئی شکلوں میں ہمارے معاشرے میں رچ بس چکی ہے
سرکاری دفاتر کا تاوان
جعلی ٹھیکے
مالی بے ضابطگیاں
اقربا پروری
سیاسی خرید و فروخت
میرٹ کا قتل
سہولیات کی فروخت
ٹیکس چوری
اور حلال نہ بھی ہو تو کیا ہوا ، سب ہی کر رہے ہیں، جیسا رویہ۔
یہ رویہ بد عنوانی کا سب سے خطرناک پہلو ہے، جب معاشرہ برائی کو برائی نہیں سمجھتا۔
پاکستان: ایک پیچیدہ مگر قابلِ اصلاح منظرنامہ
پاکستان میں بد عنوانی کوئی نیا موضوع نہیں، مگر اس کی ساخت اور اثرات آج پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔آج اگر ایک عام آدمی کو کہیں بھی’ پولیس اسٹیشن، لینڈ ریکارڈ دفتر، سرکاری ہسپتال، سول سروس، یا بلدیاتی یونٹ‘ اپنا جائز کام بھی کرنا ہو تو اکثر سفارش یا نذرانہ اس کی مجبوری بن جاتا ہے۔
یہ صورتِ حال چند بنیادی اسباب کا نتیجہ ہے:
کمزور ادارے اور سیاسی مداخلت: ادارے جب آزاد نہ رہیں، اور فیصلہ سازی سفارش اور تعلقات پر چلنے لگے، تو عوام کا اعتماد ٹوٹنے لگتا ہے۔
احتساب کا غیر موثر نظام: پاکستان میں احتساب ہمیشہ سیاسی نعرہ زیادہ اور اصولی نظام کم رہا ہے۔ احتساب کا عمل شفاف ہو تو یہ اصلاح کی بنیاد بنتا ہے؛، جانبدار ہو تو انتقام بن جاتا ہے۔
کمزور عدالتی ڈھانچہ: اگر ایک کرپٹ شخص کو سزا نہ ملے، یا برسوں چلنے والے مقدمات کسی انجام تک نہ پہنچیں، تو جرم بڑھتا چلا جاتا ہے۔
سماجی رویے: بد عنوانی صرف حکومتی سطح پر نہیں، عام سماجی زندگی میں بھی پھیل چکی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ کام بغیر لائن میں لگے ہو جائے، ہر کوئی ’’ شارٹ کٹ‘‘ تلاش کرتا ہے۔ یہی وہ نفسیات ہے جو کرپشن کو معاشرتی طاقت فراہم کرتی ہے۔
عالمی تناظر میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کئی بار خبردار کر چکی ہیں کہ پاکستان میں بد عنوانی کا پھیلا اقتصادی اور سماجی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں کرپشن کی وجہ سے: سرمایہ کاری کم ہوتی ہے، ٹیکس نیٹ محدود رہتا ہے، معیشت غیر رسمی کھاتے میں جاتی ہے، انسانی ترقی رک جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جن ممالک نے اپنے ادارے مضبوط کیے، وہاں ترقی نے مستقل بنیادیں پکڑیں، جیسے سنگاپور، نیوزی لینڈ، ناروے، اور فن لینڈ۔
انسدادِ بد عنوانی کا عالمی دن: مقصد کیا ہے؟
دن منانے سے کرپشن ختم نہیں ہوتی، لیکن بیداری، بحث اور اصلاح کی بنیاد ضرور پڑتی ہے۔
اس دن کا اصل مقصد:
شفافیت کی اہمیت اجاگر کرنا
عوام کو آگاہی دینا
حکومتی ذمہ داری کا احساس بڑھانا
اداروں کو متحرک کرنا
نوجوانوں کو بد عنوانی کے نتائج سمجھانا:
اگر یہی شعور پورے سال زندہ رہے، تو یہ دن کامیاب ہے۔
کرپشن کا اخلاقی اور مذہبی تناظر
ہمارا مذہب صرف عبادات کی بات نہیں کرتا، معاشرتی انصاف کو ایمان کا جزو قرار دیتا ہے۔ ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، امانت میں خیانت، کمیشن اور دھوکا دہی، یہ تمام چیزیں واضح طور پر حرام قرار دی گئی ہیں۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔
اس کے باوجود کرپشن اگر عام ہو جائے تو معاشرہ عبادت گاہوں سے تو بھرا نظر آتا ہے، مگر انصاف اور اخلاق سے خالی۔بد عنوانی کے تین بڑے نقصانات
معاشی تباہی: کرپشن سرمایہ کاری روکتی ہے۔ جس ملک میں سرمایہ کار کا تحفظ نہ ہو، وہ سرمایہ باہر لے جاتا ہے۔ اس سے بے روزگاری بڑھتی ہے، مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقیاتی منصوبے کھائی میں چلے جاتے ہیں۔
ادارہ جاتی کمزوری: جب سفارش اور رشوت میں فیصلہ ہوتا ہے: اہل لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں، نا اہل لوگ اوپر آ جاتے ہیں، سرکاری کارکردگی تباہ ہو جاتی ہے اور عوام ریاست پر اعتماد کھو دیتا ہے۔
سماجی ناہمواری: کرپشن امیروں کو مزید امیر اور غریبوں کو مزید محروم بنا دیتی ہے۔ یوں سماجی تقسیم بڑھتی ہے جس کا انجام اکثر بدامنی، جرائم، شدت پسندی، اور اداروں سے بے زاری کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان کرپشن سے کیسے نکل سکتا ہے؟
عملی راستہ
طاقتور سے طاقتور کا احتساب: اگر احتساب سب کا ہو، بشمول حکمران طبقہ، تو معاشرہ بدل جاتا ہے۔
سروس ڈیلیوری کو خودکار بنانا: جتنا نظام مشینی اور ڈیجیٹل ہو گا، کرپشن کم ہو جائے گی۔ ای۔ گورننس کامیاب راستہ ہے۔
پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی میں اصلاحات: یہ وہ تین ستون ہیں جن کی شفافیت پورے نظام کی شفافیت ہے۔
تعلیمی نصاب میں اخلاقی تربیت: کرپشن تب ختم ہوتی ہے جب آنے والی نسلیں ایمانداری کو طاقت سمجھتی ہوں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی آزادی: کسی معاشرے میں بدعنوانی کا سب سے بڑا دشمن آزاد صحافت ہوتی ہے۔
انفارمیشن کمیشنز کو مضبوط کرنا: جب عوام کو معلومات تک رسائی ہو، تو کرپشن چھپ نہیں سکتی۔
ذہنی بدعنوانی ، سب سے خطرناک
بدعنوانی صرف پیسے کی نہیں ہوتی، سوچ کی بھی ہوتی ہے۔ جو شخص سفارش کو اپنا حق سمجھتا ہے، جو استاد، ڈاکٹر، انسپکٹر، کلرک، اپنی ذمہ داری کو کاروبار بنا لیتا ہے، جو والدین بچوں کو’’ کام سیدھا کرانے کے لیے طریقہ‘‘ سکھاتے ہیں، وہ دراصل آنے والی نسلوں کو بد عنوان بنا رہے ہوتے ہیں۔
ایک دن نہیں، ایک شعور
انسدادِ بد عنوانی کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ محض تقریریں کافی نہیں۔ بد عنوانی ایک قومی کردار کا مسئلہ ہے۔ جب تک ہم بطور قوم یہ فیصلہ نہ کریں کہ
میرٹ پر سمجھوتہ نہیں ہو گا
سفارش جرم ہے
رشوت کمزوری ہے
ادارے مقدس ہیں
قانون سب کے لیے برابر ہے
تب تک کوئی قانون، کوئی ادارہ اور کوئی عالمی دن ہمیں کرپشن سے نہیں بچا سکتا۔
روشنی باہر سے نہیں، اندر سے آتی ہے
قومیں قانون سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ بد عنوانی کے خلاف اصل جنگ گھر سے شروع ہوتی ہے: ایک فیصلے سے، ایک انکار سے، ایک سچ سے۔
اگر ہم نے اندر کی بد عنوانی مار دی، تو باہر کی بد عنوانی خود بخود ختم ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ جب عالمی مالیاتی ادارے (IMF)قرض دینے سے پہلے سخت شفافیت اور گورننس کی شرائط عائد کرتے ہیں، تو یہ دراصل آڈیٹر جنرل کی رپورٹس میں بے نقاب ہونے والی مالیاتی بے ضابطگیوں اور سرکاری اداروں میں کرپشن کے ثبوتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ رپورٹس ہر سال اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ہماری قومی دولت کو کیسے ضائع کیا گیا اور ادارے کس قدر کمزور ہوئے۔ قومی بیداری اور قومی احتساب کے بغیر، ہم کبھی بھی عالمی معاشی انحصار سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔
اور یہی اس دن کا اصل پیغام ہے۔





