Column

عام آدمی کی زندگی، ترجیح کب بنے گی؟

عام آدمی کی زندگی، ترجیح کب بنے گی؟
کالم نگار :امجد آفتاب
مستقل عنوان:عام آدمی
ہر دور کی حکومت نے دعویٰ تو یہی کیا کہ عوام کی خدمت اس کا بنیادی مقصد ہے، مگر زمینی حقیقت ہمیشہ اس کے برعکس رہی۔ عام آدمی آج بھی مہنگائی، بے روزگاری، صحت و تعلیم کی ناکافی سہولیات اور انصاف کے کمزور نظام تلے دبا ہوا ہے۔ ریاستی پالیسیوں کا بوجھ ہمیشہ اسی طبقے پر ڈالا جاتا ہے، جو پہلے ہی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ سیاست دانوں کے وعدوں، منشوروں اور بلند بانگ دعوں کے باوجود عام شہری کی حالت بہتر نہیں ہو سکی۔ بجٹ سے لے کر ترقیاتی منصوبوں تک ہر فیصلہ طاقتور طبقات کے مفاد کے گرد گھومتا ہے، جب کہ وہ شخص جو شہر کا بوجھ، کھیتوں کی محنت اور اداروں کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ اکثر نظرانداز ہی رہتا ہے۔
عام آدمی کی زندگی اس قدر پیچیدگیوں میں جکڑ چکی ہی کہ اسے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کئی دروازوں پر دستک دینا پڑتی ہے۔ مہنگائی نے اس کی بنیادی ضرورتوں کو بھی عیاشی بنا دیا ہے۔ بازار میں جاتے ہوئے اس کا دل دھڑکنے لگتا ہے کہ آج کون سی چیز کی قیمت دوبارہ بڑھ چکی ہو گی۔ تنخواہوں اور آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کے باعث عام شہری کی قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس نے مایوسی کو جنم دیا، اور یہی مایوسی مستقبل کی سمت پر سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری ایک ایسا بحران بن چکا ہے جس نے نوجوان نسل کا اعتماد مجروح کیا ہی۔ ڈگریاں رکھنے والے لاکھوں نوجوان روزگار کے لیے دربدر پھرتے ہیں، جبکہ ہنر مند طبقہ جدید صنعتوں کے فقدان کی وجہ سے اپنے روزگار کے مواقع تیزی سے کھو رہا ہے۔ ریاست اور منڈی کے درمیان پل نہ ہونے کی وجہ سے محنت کش طبقہ ہمیشہ ہی کمزور پتھر بنا رہتا ہے۔
تعلیم کا شعبہ بھی عام آدمی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ نجی اداروں کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور سرکاری ادارے سہولیات سے محروم ہیں۔ نتیجتاً، بچے وہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے جو انہیں بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکے۔ صحت کا شعبہ بھی اسی حال میں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان اور علاج کے بڑھتے اخراجات عام آدمی کے لیے ایک خوفناک تجربہ بن چکے ہیں۔
یہ سب مسائل دراصل ایک بڑے بحران کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ریاستی ترجیحات میں "انسان” کو شامل نہ کیے جانے کا بحران۔ طاقتور طبقات کے لیے پالیسیاں برق رفتاری سے بنتی اور نافذ ہوتی ہیں، مگر عوام کے لیے بننے والی پالیسیاں فائلوں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ عام آدمی کو پہلی بار ریاستی ترجیحات میں حقیقی جگہ دی جائے۔ اگر حکومتیں واقعی تبدیلی چاہتی ہیں تو انہیں تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف کے شعبوں میں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کا اثر سیدھا عام شہری کی زندگی پر پڑے۔ ریاست اس وقت مضبوط نہیں بنتی جب عمارتیں اونچی ہوں، بلکہ تب بنتی ہے جب اس کا عام آدمی خوشحال، محفوظ اور باوقار زندگی گزارے۔ یہی وہ سرمایہ ہے جو کسی بھی قوم کی اصل ترقی کا محرک بنتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو محض تقاریر تک محدود نہ رکھے بلکہ عملی میدان میں ایسے فیصلے کرے جن سے عام آدمی کی روزمرہ زندگی پر فوری اثرات مرتب ہوں۔ مہنگائی کنٹرول کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، تعلیمی اداروں کی بحالی، صحت کے بنیادی نظام کو فعال کرنا، اور انصاف کی فراہمی کو موثر بنانا وہ ستون ہیں جن کے بغیر ریاست کا ڈھانچہ غیر مستحکم رہتا ہے۔
ایک مضبوط، خودمختار اور باوقار قوم کی بنیاد ہمیشہ عام آدمی سے ہی رکھی جاتی ہے، اور جب تک اس بنیاد کو مضبوط نہیں کیا جائے گا، ترقی کے خواب یہیں ادھورے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button