عسکری عزم، سیاسی اتفاق اور قومی راہ

اداریہ۔۔
عسکری عزم، سیاسی اتفاق اور قومی راہ
پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ریاست کی سوچ، اداروں کی ذمے داریاں اور قوم کی اجتماعی سمت کا تعین نہایت اہم ہوچکا ہے۔ حالیہ قومی علماء کانفرنس میں چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کے خطابات نے نہ صرف موجودہ ریاستی بیانیے کو واضح کیا، بلکہ یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کو درپیش خطرات کسی ایک ادارے یا ایک طبقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری قوم کا مشترکہ امتحان ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک اہم حقیقت کی نشان دہی کی: دہشت گردی پاکستان کا نہیں، بھارت کا وتیرہ ہے۔ ہم دشمن کو چھپ کر نہیں بلکہ للکار کر مارتے ہیں۔ یہ جملہ صرف ایک دفاعی بیان نہیں بلکہ پاکستان کے عسکری عزم، خودداری اور واضح حکمتِ عملی کا اظہار بھی ہے۔ پاکستان نے پچھلی دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں شہری، سپاہی، افسر اور کمانڈر اس جنگ میں شہید ہوئے لیکن پاکستان نے کبھی دشمن کے مقابلے میں پیچھے ہٹ کر مذاکرات کی بھیک نہیں مانگی۔اسی خطاب میں فیلڈ مارشل نے ریاستِ طیبہ اور ریاستِ پاکستان کے باہمی تعلق کو جس انداز میں بیان کیا وہ قومی روحانی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اللہ نے مسلم ممالک میں سے محافظینِ حرمین کے اعزاز کے طور پر پاکستان کو ایک خصوصی مقام بخشا ہے، جو ہماری خوش نصیبی بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ اسی تناظر میں سعودی عرب کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدے کو پاکستان کے مستقبل، خطے کے استحکام اور اسلامی دنیا میں پاکستان کے کردار کے لیے سنگ میل قرار دیا گیا۔ فیلڈ مارشل نے علم و قلم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب کوئی قوم تعلیم چھوڑ دیتی ہے تو اس میں انتشار، فساد اور زوال جنم لیتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی بھی یہی رہی کہ ایک طرف علمی زوال نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور کیا، تو دوسری جانب فرقہ واریت، سیاسی تقسیم اور طاقت کی رسہ کشی نے قومی اتحاد کو تاراج کیا۔ اس صورت حال میں علمائے کرام کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے درست کہا کہ اسلامی ریاست میں جہاد کا اعلان صرف ریاست کا اختیار ہے، اس اصول کی خلاف ورزی نے ماضی میں دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھنے کا جواز دیا جس کا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا۔ دوسری جانب اسی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال پر واضح موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جادو ٹونے سے نہیں بلکہ محنت سے ملک ترقی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشی استحکام کے بغیر نہ ریاست مضبوط ہوسکتی ہے اور نہ عوام مطمئن۔ وزیراعظم نے بتایا کہ عسکری و سیاسی قیادت کی مشترکہ کوششوں سے معیشت، جو ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی تھی، دوبارہ پٹری پر آئی۔ یہ اعتراف اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں اس وقت اداروں کے درمیان بامعنی تعاون موجود ہے اور مستقبل کی کامیابی اسی تعاون کے تسلسل سے ممکن ہوگی۔ وزیراعظم نے دہشت گردی اور ترقی کے درمیان موجود تضاد پر بھی کھل کر بات کی۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں معصوم شہریوں پر حملے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سرگرم قوتیں صرف ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں، بلکہ پورے ملک کی ترقی اور امن کی راہ روکنے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے درست کہا کہ دہشت گردی اور ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ اگر ملک کے ایک حصے میں امن نہ ہو تو پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔وزیراعظم نے افواجِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کو ناقابلِ برداشت قرار دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں، دنیا میں کوئی دوسری فوج اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ معرکہ حق میں اللہ کی نصرت سے حاصل ہونے والی کامیابی صرف عسکری قوت کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ یہ پوری قوم کے اتحاد، دعا اور اجتماعی عزم کا اظہار تھا۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ دونوں قائدین کے خطابات ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی توسیع ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے قومی، عسکری اور فکری اتحاد پر زور دیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے سیاسی استحکام، معاشی بحالی اور مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت اجاگر کی۔ دونوں بیانیوں کو ملا کر دیکھیں تو پاکستان کے مستقبل کی ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ قومی اتحاد ناگزیر ہے۔ علم و شعور کے بغیر قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ دہشت گردی کا بیانیہ ریاستی طاقت سے ہی ختم ہوگا۔ معیشت کی بحالی کے بغیر مضبوط پاکستان ممکن نہیں۔ فرقہ واریت اور انتشار کو روکنے کے لیے علمائے کرام کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی سازشوں اور دشمنانہ رویوں کے مقابلے کے لیے قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ آخر میں، پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب قوم انتشار چھوڑ کر اتحاد اپنائے، ادارے ایک دوسرے کی تضحیک کے بجائے تعاون کریں اور ہر فرد اپنے حصے کی ذمے داری ادا کرے۔ پاکستان ایک مشکل مگر امید سے بھری منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب ایک قوم بن کر اس سفر کو جاری رکھیں۔
شذرہ۔۔
چینی کی قیمت میں کمی
پنجاب میں گنے کی کرشنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد چینی کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں 54لاکھ 9ہزار 889ٹن گنے کی کرشنگ مکمل ہوچکی، جس سے 4لاکھ 30ہزار 778 میٹرک ٹن چینی کی پیداوار ہوئی۔ اس پیداوار کے باعث ایکس مل قیمت میں 15سے 17روپے فی کلو تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی سے نہ صرف چینی کی قیمتوں میں تھوڑا استحکام آیا بلکہ مارکیٹ میں گنے کے کسانوں کے لیے بھی کچھ آسانی پیدا ہوئی ہے، جو فی چالیس کلوگرام گنے کی قیمت 375سے 480روپے کے درمیان وصول کررہے ہیں۔ چینی کی قیمتوں میں یہ کمی عوام کے لیے خوش آئند ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی کے باعث چینی سمیت دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کمی سے عوام کو کچھ ریلیف ملا اور آنے والے دنوں میں چینی کی قیمت مزید کم ہونے کی توقع ہے۔ کین کمشنر پنجاب، امجد حفیظ کے مطابق، اس وقت پنجاب میں 5لاکھ 42ہزار 900 میٹرک ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں، جو مارکیٹ میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ صورتحال کسانوں کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ شوگر ملیں گنے کے پیدا کنندگان کو مناسب قیمت ادا کررہی ہیں۔ اگرچہ گنے کی قیمتوں میں کچھ اتار چڑھائو آنا قدرتی عمل ہے، لیکن موجودہ قیمتوں میں استحکام کسانوں کے لیے کسی حد تک فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر حکومت اور شوگر ملیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی معقول قیمت ملے، تو اس سے نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ کسانوں کی معاشی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔ اگرچہ چینی کی قیمتوں میں کمی ایک مثبت علامت ہے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کمی کا فائدہ عوام تک پہنچے اور مارکیٹ میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا نہ ہو۔ اگرچہ حکومت نے چینی کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے ہیں، لیکن اگر یہ ذخائر صحیح طریقے سے مارکیٹ میں تقسیم نہ ہوئے تو پھر قیمتوں میں دوبارہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس بات کا انتظام کریں کہ چینی کی قیمت میں مزید استحکام آئے اور عوام کو سستی چینی مل سکے۔ چینی کی قیمتوں میں کمی کے باوجود، گنے کی کاشت اور چینی کی پیداوار کے سلسلے میں مزید پائیدار اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو جدید تکنیکوں اور معیاری بیجوں کے ذریعے زیادہ پیداوار کی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ وہ بہتر فصل حاصل کرسکیں۔ مزید برآں، شوگر ملوں کو بھی چاہیے کہ وہ کسانوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کریں اور ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی قیمتوں کو مزید منصفانہ بنائیں۔ آخرکار، چینی کی قیمتوں میں کمی اور گنے کی کرشنگ کے عمل کی تکمیل ایک مثبت قدم ہے جو صارفین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کمی کو مستقل بنانے کے لیے حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ایک جامع حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ قیمتوں میں استحکام برقرار رہے اور کسانوں کو بھی فائدہ پہنچے۔







