سیاست دانوں کو ذاتی مفادات کے خول سے نکلنا ہوگا

سیاست دانوں کو ذاتی مفادات کے خول سے نکلنا ہوگا
امتیاز عاصی
پاکستان میں جمہوری عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاست دانوں کے ملکی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات ہیں۔ جب تک سیاست دان اقتدار کے حصول کے خول سے نہیں نکلے پائیں گئے ملک میں جمہوری عمل فروغ نہیں پا سکے گا۔ سیاست دانوں کو جمہوریت سے لگائو ہوتا وہ اقتدار میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کے خلاف بعض اداروں کے دبائو میں عدم اعتماد کی تحریک نہ لاتے۔ مجھے یاد ہے بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے ایک ادارے کے سربراہ نے ایم کیو ایم کے تعاون سے لانے کی کوشش کی، جس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ سیاسی جماعتوں کو کسی کے دبائو میں آکر اقتدار میں بیٹھی جماعت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ یہ علیحدہ بات ہے اقتدار میں بیٹھی جماعت کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو سیاسی جماعتوں کو اپنے طور پر ایسی جماعت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں کوئی حرج نہیں نہ کہ اداروں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا جائے۔ سیاست دانوں پریہ بھی لازم ہے وہ اداروں کے بل بوتے پر اقتدار کی کوششوں کو ترک کر دیں اور عوام میں مقبولیت کے بل بوتے پر اقتدار میں آکر ملک و قوم کی خدمت کریں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے بعض سیاست دان اقتدار کی خاطر اور اسے طوالت دینے کے لئے بہت نچلی سطح پر چلے جاتے ہیں۔ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے قیام پاکستان کے بعد سے یہاں زیادہ عرصہ مارشل لاء رہا ہے جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں لہذا اس میں کسی ادارے کا بہت کم اور زیادہ قصور سیاست دانوں کا ہے جو بعض اداروں کی تابعداری کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں پر بھی یہ بات ضرور ی ہے وہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عوام میں جائیں اور ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئیں۔ ہم انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لاتے ہیں سوال ہے اگر سیاست دان اقتدار کے حصول کی بجائے شفاف الیکشن پر یقین رکھتے ہوں انتخابات میں کوئی دھاندلی کی جرات نہیں سکتا۔
کہا جاتا ہے عدلیہ آزاد نہیں ہے عدلیہ کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ مان لیا عدلیہ آزاد نہیں ہے تا ہم اس ذمہ دار کون ہے کوئی ادارہ یا سیاست دان ہیں؟ پارلیمنٹ میں قانون سازی کوئی ادارہ نہیں کرتا نہ کسی ادارے کا سربراہ کرتا ہے بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان کرتے ہیں۔ آج سیاست دان آئین میں ترامیم کا رونا روتے ہیں تو آئین میں ترامیم کا ذمہ دار کون ہے؟ ایک سیاست دان کو جیل میں رکھ کر تمام سیاست دان خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ کیا جمہوریت اسی کو کہتے ہیں، ہاں البتہ کسی سیاسی جماعت کو ملکی سالمیت اور دفاعی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز کرنا چاہیے، نہ کہ ہر معاملے میں اداروں کو ملوث کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ اداروں پر بھی لازم ہے وہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں، نہ کہ عوام کی کو خواہشات کے برعکس کسی جماعت کو اقتدار دلانے کی سعی کریں۔
پاکستان کا آئین ہر شہری کو اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت پر نو مئی کے واقعات کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس کی پاداش میں سیاسی جماعت کے کئی رہنما جیلوں میں ہیں اور اس کا بانی بھی جیل میں ہے۔ چلیں نو مئی کے واقعات پر کوئی ٹریبونل قائم نہیں ہو سکا ہے تو کم از کم عدلیہ کو بھی بلا خوف و خطر فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے عدلیہ میں اداروں کی مداخلت کی نالش سابق چیف جسٹس اور موجودہ چیف جسٹس کو ارسال کی جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے، الٹا آئین میں ترمیم کرکے ججوں کو دوسرے صوبوں میں تبدیل کرنے کا قانون وجود میں آگیا ہے۔ ہم بانی پی ٹی آئی کے سیاسی طرز عمل پر بھی معترض ہیں، اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتا تو شائد آج قید و بند میں نہیں ہوتا لیکن عمران خان نے بھی اقتدار کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی سب سے بڑی کمزوری اسے اپنے اور پرائے کی شناخت نہیں، وہ جو اس کا ساتھ نبھانے کا عہد کرتے تھے مشکل وقت میں اسے چھوڑ گئے ہیں۔ آج ماسوائے بانی کی بہنوں اور چند پارٹی رہنمائوں اور ورکرز کے اس کی رہائی کے لئے کون جدوجہد کر رہا ہے۔ فواد چودھری اور عامر کیانی جیسے سابق وفاقی وزراء کے علاوہ کئی اور پارٹی کے سنیئر رہنمائوں نے بانی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اس کے ساتھ پارٹی کے ان رہنمائوں کو ہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چودھری، سرفراز ڈوگر اور پارٹی کے ان ورکرز کو جنہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں ہو چکی ہیں ان کا عزم و حوصلہ قابل تحسین ہے۔
اس ناچیز کے خیال میں پی ٹی آئی کے جو سنیئر رہنما آزاد ہیں انہیں حکمت عملی سے بانی کی رہائی کے لئے جدوجہد کرنی کی ضرورت ہے۔ سینٹرل جیل اڈیالہ کے باہر شور و غوغا اور نعروں سے بانی کی رہائی کسی صورت ممکن نہیں۔ ان کے ہنگاموں اور اداروں کے خلاف بیانات نے بانی کے اہل خانہ کو ملاقاتوں سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں بانی کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے غم کو بھلا کر نئے سرے سے اپنی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ اداروں سے ٹکرائو کی سیاست سے اقتدار کی منزل دور ہونے کے ساتھ رہائی کی امیدیں معدوم ہو تی جا رہی ہیں۔
اب آخر میں یہ بات عین ممکن ہے بانی اور اس کی جماعت کو گراں گزرے لیکن سچ تو یہ ہے بانی نے اقتدار میں ہوتے ہوئے اتنے دشمن پیدا کر لئے شائد اقتدار میں نہ رہتے ہوئے کسی سیاست دان نے نہ پیدا کئے ہوں گے۔ سیاست دانوں کا مطمع نظر ملک و قوم کی ترقی ہونا چاہیے ملک ترقی کرے گا تو عوام بھی خوشحال ہوں گے۔ بدقسمتی سے ملک میں جھوٹ کی سیاست نے عوام کو سیاسی جماعتوں سے بہت دور کر دیا ہے، جس کا نتیجہ گزشتہ انتخابات میں سب نے دیکھ لیا ہے۔







