عوامی تیور بگڑنے کو تیار
تحریر : سیدہ عنبرین
کمر توڑ مہنگائی میں آئی پی پیز کے ساتھ ساتھ کئے گئے عوام دشمن معاہدوں نے عام آدمی کے ساتھ قومی خزانے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ رہی سہی کسر تقسیم کار کمپنیوں نے پوری کر دی۔ انہوں نے کئی کروڑ یونٹ کی جعلی بلنگ کی اور خوب مال سمیٹا، ایک طرف جعلی بلوں کے ذریعے ریونیو میں اضافہ کیا جا رہا تھا، دوسری طرف ملی بھگت سے بجلی چوری عروج پر تھی، ملک گیر سطح پر بے چینی بڑھی تو جماعت اسلامی متحرک ہوئی، احتجاج اور دھرنا شروع ہوا، جسضکے مقاصد کچھ اور ہیں، احتجاج موثر ہوا تو بے دلی سے مذاکرات شروع کئے گئے، جن کا مقصد معاملے کو حل کرنے سے زیادہ یہ اندازہ کرنا تھا کہ دھرنے کے شرکاء کس حد تک قوت برداشت رکھتے ہیں اور کب تک بیٹھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے روزانہ بل نہ دینے کی سکت رکھنے والوں کی خودکشیوں کی خبریں آنے لگیں تو پھر قدرے سنجیدگی سے سوچ بچار شروع ہوئی لیکن جس برق رفتاری سے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت تھی اس کا فقدان نظر آیا، ٹال مٹول پالیسی کے ساتھ ساتھ مون سون سے توقعات وابستہ کر لی گئیں کہ ملک بھر میں بارشوں کے سپیل شروع ہونگے تو دھرنا دینے والے اپنے گھر کی راہ لیں گے، یہ مرحلہ بھی گزر گیا، جب دھمکی آئی کہ کراچی سے شروع ہونے والا احتجاج اب ملک گیر سطح پر جائے گا تو اس مرحلے پر مشتعل عوام اور جماعت اسلامی کی لیڈر شپ سے کچھ وقت مانگا گیا، اس دوران وزیر توانائی متعدد مرتبہ حکومت کی ترجمانی کیلئے مختلف ٹی وی چینلز پر آتے رہے اور طفل تسلیاں دیتے رہے، ان کی ہر بات کی تان اس پر ٹوٹتی تھی کہ بجلی چوری ہی واحد وجہ ہے جس پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں، وہ اس طرف نہ آتے تھے کہ ہر ماہ کئی ارب ڈالر بنا بجلی بنائے اور پن بجلی خریدے پرائیویٹ کمپنیوں کو دیئے جا رہے ہیں۔
ایک سابق وزیر جناب گوہر اعجاز کے ایک ٹی وی انٹرویو نے دنیا کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ انہوں نے جو پوشیدہ تصویر سامنے رکھی تو ایک مرتبہ دھوکہ دہی کی کوشش کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ اپٹما کے ایک گروپ کا معاملہ ہے۔ عوام جماعت اسلامی کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے کھڑے رہے، جس پر پنجاب حکومت نے 2ماہ کیلئے 14 روپے فی یونٹ ریلیف کا اعلان کیا تو باقی صوبوں کے بسنے والے بیدار ہوئے کہ جو ڈاکے ان کی جیبوں پر ڈالے گئے ان کا ذمہ دار کون ہے، انہیں کوئی ریلیف کیوں نہیں مل رہا۔ 2ماہ کا ریلیف کوئی بہت بڑا ریلیف نہ تھا، وہ بھی فوراً نہ ملا اس کیلئے بھی انتظار فرمایئے کا کہا گیا، لیکن ساتھ ہی آئی ایم ایف میدان میں اترا اور یہ ریلیف لے اڑا۔ حکومت کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے یہ بھی پوچھا گیا کہ یہ ریلیف دینے کی جرات کیسے ہوئی، اب حکومت بغلیں جھانک رہی ہے اور جس خوددار پاکستان کی بات کی جاتی تھی اب وہ چہرہ چھپایا جا رہا ہے۔ حقائق یہی ہیں اب منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، حکومت کو دی گئی مہلت ختم ہو رہی ہے، عوام کو حقیقی ریلیف نہ ملا تو حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں، پہیہ جام ہڑتال یا اسلام آباد کی طرف مارچ سائل میں اضافہ کر سکتے ہیں، عوامی احتجاج روکنے کیلئے اجتماع ایکٹ کا سہارا پائیدار ثابت نہ ہو گا۔ شٹر ڈائون ہونے سے بچنے کیلئے عوام کے ساتھ ساتھ صنعتکاروں کو ریلیف دیئے بغیر بات نہ بنے گی۔
حکومت کیلئے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس مرتبہ حکومت کی حامی سمجھی جانے والی تاجر تنظیمیں میدان میں حکومتی پالیسیوں کے سامنے کھڑی ہیں، وہ آئی پی پیز معاہدوں کے معاملے میں حکومت مخالف سرگرمیوں میں اپنا کردار کرتی نظر آتی ہیں، ان کا موقف جاندار ہے کہ مہنگی بجلی سے مہنگی پیداوار نے کاروبار تباہ کر دیئے ہیں، وہ صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہیں، بند صنعتوں کے مزدور عام شہریوں کے ساتھ سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہیں۔ مون سون سیزن گزر چکا ہے، سیاسی اور احتجاجی سرگرمیوں کیلئے موسم ساز گار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف آئی پی پیز مالکان کو نہ چاہتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے، لیکن کوئی قابل عمل فارمولا ابھی تک سامنے نہیں آیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید جلد کوئی ریلیف فارمولا سامنے نہ آئے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ریلیف فارمولا بنانے والوں کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے۔
بجلی بلوں کے ستائے عوام اور کارخانہ داروں کے علاوہ اس مرتبہ کسان بھی حکومت مخالف سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے، کیونکہ گندم کی فصل اٹھانے کے معاملے میں انہیں آخری لمحوں تک اندھیرے میں رکھا گیا اور ہر روز ایک نیا وعدہ نیا جھانسہ دیا جاتا رہا کہ بار دانہ کا انتظام کر رہے ہیں۔ 15روز میں گندم کی خریداری کا آغاز ہو جائے گا، کسان گندم کھلے آسمان تلے رکھ کر بار دانہ آنے کے انتظار میں بیٹھے رہے، وہ تو نہ ملا، بادل سر پر پہنچ گئے، جس کے ساتھ ہی اچانک حکومت نے گندم نہ خریدنے کا اعلان کر دیا، جس نے کسان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ وہ مہنگی بجلی، مہنگا بیج اور مہنگی ترین کھاد استعمال کر کے توقع سے زیادہ پیداوار دے چکا تھا اور منتظر تھا کہ گندم کی خریداری شروع ہو گی تو اس کے زخموں کا مرہم ملے گا، ان کی قسمت ایسا نہ ہو سکا، گندم نہ خریدنے کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا، یہ فیصلہ کم از کم 6ماہ قبل کیا جانا چاہئے تھا تاکہ کسان اپنی منصوبہ بندی کر لیتے اور فصل تیار ہونے سے قبل اس کی فروخت کے انتظامات کر لیتے۔
کسانوں سے گندم نہ خریدنے کے فیصلے کے پیچھے تلخ حقیقت یہ تھی کہ حکومت کا خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ روز مرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر کام بینکوں سے ادھار پر چل رہا تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دوست ملکوں سے قریباً 10 ارب روپے کے قرض ابھی ری شیڈول نہیں ہو سکے، کہیں سے صاف انکار، کہیں سے کڑوی شرائط سامنے آئی ہیں، کوئی 9ارب ڈالر کا مال فقط ایک ارب ڈالر میں خریدنا چاہتا ہے تو کسی نے ایک لاکھ ایکڑ زمین پٹے پر مانگ لی ہے تاکہ وہ اجناس یہاں آگائیں اور اپنے ملک کے بسنے والوں کی ضروریات پوری کریں، ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ان سے اس کے بدل میں تیل کے دو کنویں مانگ لیں، تاکہ اپنے عوام کو سستا پٹرول دے سکیں، یہ کبھی نہ ہو سکے گا، ہم اپنا سب کچھ بیچیں گے اور سستے داموں بیچیں گی، تیور تو یہی بتاتے ہیں جبکہ عوام کے تیور بگڑنے والے ہیں۔