Column

پنجاب میں انسدادِ سموگ کے پیشگی اقدامات

تحریر : رفیع صحرائی
پاکستان میں ہر سال اکتوبر تا دسمبر تین ماہ کا عرصہ شہریوں کے لیے سموگ کا عذاب لے کر آتا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اپنی عاقبت نااندیشیوں کے سبب پیدا ہونے والی سموگ کو خدائی عذاب سمجھ کر پاکستانی بھگت رہے ہیں۔ حکومتیں اس اہم مسئلے پر بروقت توجہ نہیں دیتیں۔ جب سموگ کی وجہ سے معمولاتِ زندگی اور شہریوں کی صحت متاثر ہوتی ہے تو حکومتی زعماء اور سرکاری ادارے حرکت میں آتے ہیں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
گزشتہ سال نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی نے سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا اہتمام کر کے سموگ پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش کی تھی۔ لیکن صرف لاہور کے علاقے میں محدود پیمانے پر برسائی گئی مصنوعی بارش خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی البتہ اس اقدام نے سموگ کے خاتمے کی ایک نئی راہ ضرور سجھا دی۔
پنجاب کی موجودہ وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف جب سے اقتدار میں آئی ہیں تب سے ان تھک محنت سے کام کر رہی ہیں۔ ان کا ہوم ورک مکمل ہے اور ہر معاملے پر وہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں وہ عوام کو ریلیف دینے اور انفراسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں کوشاں ہیں وہیں پر عوامی مسائل پر بھی ان کی خصوصی نظر ہے۔ وہ مسائل کو اچھی طرح سمجھ کر ان کے حل کی پوری کوشش کرتی ہیں۔ ان کے حکم پر سموگ کی آمد سے ایک ماہ قبل ہی اس سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی نہ رکھنے والے اینٹوں کے بھٹوں کو گرایا جا چکا ہے۔ صنعتوں میں زہریلے دھوئیں کی مانیٹرنگ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے اقدامات پر بھی عمل درآمد جاری ہے۔ فصلوں کو تلف کرنے کے عمل کے دوران پھیلانے والے دھوئیں کے نتیجے میں گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں۔ پنجاب میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی اور ڈرونز کے استعمال سے زیادہ دھواں پھیلانے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ اب ناقص اور غیر معیاری انیدھن کے استعمال کو روکنے کے لیے قانونی اور انتظامی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ قانونی معیار کے مطابق ڈیزل اور پٹرول فروخت نہ کرنے والے پٹرول پمپس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
آلودگی کی چار بڑی اقسام زمینی آلودگی، شور کی آلودگی، فضائی آلودگی اور آبی آلودگی میں سے فضائی آلودگی سب سے خطرناک اور انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس آلودگی کی بڑی وجوہات میں گاڑیوں کا دھواں، کوئلے سے چلنے والے اینٹوں کے بھٹّوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں، فصلوں پر غیر معیاری زرعی ادویات کا سپرے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دھواں شامل ہیں۔
سموگ سے پہلے ہی شہر لاہور دنیا کے پانچ آلودہ ترین شہروں میں سرِ فہرست ہوتا ہی۔شہر کا اوسط AQI( ایئر کوالٹی انڈیکس) 250تک پہنچ جاتا ہے جو کہ انتہائی الارمنگ سچویشن ہے۔ اسے 70سے 80کے درمیان ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سموگ سے پہلے لاہور شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن جاتا ہے تو ڈیڑھ ماہ بعد جب سموگ کا موسم شروع ہو گا اس وقت کیا عالم ہو گا؟ ماہرین کی طرف سے اس خدشے کا اظہار سامنے آ رہا ہے کہ اگر آلودگی پر قابو پانے کے لیے تیز رفتار اقدامات نہ کیے گئے تو رواں سال سموگ کا سیزن بہت شدید ہو سکتا ہے۔
موجودہ صورتِ حال کو دیکھا جائے تو لاہور سمیت تمام بڑے شہروں کے باسی ایسی فضا میں سانس لے رہے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے مگر بدقسمتی سے پنجاب کے علاوہ دوسری کسی بھی صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت کی طرف سے نہ تو اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے کبھی لیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے تدارک کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ حالانکہ سب کو پتا ہے کہ سموگ نے ایک عفریت کا روپ دھار لیا ہے جو ہر سال سینکڑوں زندگیاں نگل جاتا ہے۔ نوجوان، بوڑھے اور بچے بلا تخصیص اس کا شکار ہوتے ہیں۔ آنکھ، ناک اور گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے والے سموگ کے شکار کئی کئی روز تک بستر سے نہیں اٹھ پاتے۔
ورلڈ بینک اور غیر ملکی ادارے فنڈز دینے کو تیار ہیں مگر یہاں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صرف وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف نے لاہور سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں سموگ میں کمی کے لیے وضع کردہ پلان پر موثر انداز میں عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سموگ کا سبب بننے والے عوامل پر قابو پانے کے لیے کارروائی عمل میں لائی جائے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات، ٹرانسپورٹ اور انتظامیہ کے افسر خود فیلڈ میں جائیں اور سموگ میں کمی کے لیے جاری ایس او پیز پر عملدرآمد کروائیں۔اس سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے احکامات کی روشنی میں سموگ کی روک تھام کے لیے پنجاب کے دھواں دینے والی فیکٹریوں کو سیل کیا جا رہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی پر منتقل نہ ہونے والے بھٹوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی جانب سے سموگ کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کا اجراء قابلِ تحسین ہے۔ لیکن اصل معاملہ ان کے احکامات پر من و عن عمل کرنے اور ذمہ داری کا احساس کرنے کا بھی ہے۔ اکیلی حکومت اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتی جب تک شہری بھی اس کے ساتھ بھرپور تعاون نہ کریں۔ دیہات میں تو شہریوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے جہاں فصلوں کی باقیات کو جلانا معمول کی بات ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا پر سموگ کے متعلق اشتہارات کے ذریعے آگاہی مہم شروع کرے۔ دھواں چھوڑتی گاڑیوں، کارخانوں اور فیکٹریوں کے علاوہ کوئلے سے چلنے والے بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کے مضر اثرات کی عوام کو جانکاری دے۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے کے مضر اثرات سے آگاہ کرے۔ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں چاول کی فصل کی کٹائی کا سیزن جاری ہے۔ فصل کی باقیات کو تلف کرنے کے لیے اسے آگ لگا کر فضا کو آلودہ اور مسموم کیا جا رہا ہے۔ کسی قسم کی روک ٹوک نہیں کی جا رہی۔ اگر پولیس کہیں کارروائی کرتی بھی ہے تو ذمہ داران کے سیاسی اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔ کہیں پولیس اپنی مٹھی گرم کر کے ان لوگوں کو چھوڑ دیتی ہے۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے صرف پولیس اور دیگر اداروں پر بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ ایک ٹال فری نمبر دیا جائے جس کا رابطہ براہِ راست متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر آفس سے ہو اور شہری اس نمبر پر آلودگی کا سبب بننے والے عوامل کی شکایت کر سکیں۔ اس طرح عمل درآمد کرانے والے ادارے چوکس بھی رہیں گے اور اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب بھی نہیں ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button