عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
7ستمبر وہ تاریخ ساز دن ہے جب 1974ء میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے بحث و مباحثہ اور ہر پہلو پر مکمل غور و خوض کے بعد قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ بلاشبہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے باب کو بند سمجھنا اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریبا ً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختم نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر مرتد ، زندیق ، دائرہ اسلام سے خارج ، اور واجب القتل ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ نہیں ہیں محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے‘‘ ( سورۃ الاحزاب آیت نمبر40)۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک لے کر فرمایا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے ’’ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ‘‘ ( مسلم )۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرامٌ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہی، لوگ اس عمارت کے اردگرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ( آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں ) اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ ( بخاری و مسلم ، ترمذی )۔ ایک اور حدیث مبارکہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ میری امت میں سے تیس کذاب ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ‘‘ ( ابو دائود) ۔
اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے ، اس کلمے کے دو جزو ہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف و اقرار۔ آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا
ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے، بلکہ امام اعظم امام ابوحنیفہؒ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو عظیم قربانیاں دیں وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ دشمنان اسلام کی جانب سے ہر دور میں مسلمانوں کو اسلام سے گمراہ کرنے کی کوششیں جاتی رہی ہیں۔ دشمنوں کی ان سازشوں پر نگاہ رکھنے، اور ان کی مسلمانان اسلام کو راہ راست سے بھٹکانے کی گھنائونی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر سال 7ستمبر کا دن یوم تحفظ ختم نبوت کے طورپر منایا جاتا ہے ۔ کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ملعون نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیا تو علماء و مشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں قادیانیت کا
محاسبہ کیا ، اور سات ستمبر1974ء کے دن پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے مشترکہ طورپر تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے اس فتنے کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی اور متفقہ طور پر قادیانیوں، احمدیوں اور مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا ۔ اس فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر ختم نبوت پر کسی کو ڈاکا ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔
زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا، چھاتی45 انچ کی، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟، نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے، تاجدار ختم نبوت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں‘‘۔