Column

نہم جماعت کا کمزور رزلٹ لمحہ فکریہ ہے

رفیع صحرائی
پورے پنجاب میں جماعت نہم کا نتیجہ شائع ہو گیا ہے، جو زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ قریبا ساٹھ فیصد طلبا ء کامیاب نہیں ہو سکے۔ بہت بھاری فیسیں وصول کرنے والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی اپنی سابقہ روایات کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ سارا سال اپنی اکیڈمیوں کی تشہیر کرنے والے اکیڈمی مالکان بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ طلبہ نے بری کارکردگی سے سب کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔
ہمیں غور کرنا ہو گا کہ اس خراب رزلٹ کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بدولت رزلٹ بہتر نہیں آ سکا۔ آئیے چند وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ تاکہ ان کی روشنی میں آئندہ کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے
1۔ میرے خیال میں رزلٹ بہتر نہ آنے کی سب سے پہلی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ تعلیم کے فروغ کے نام پر غیر ملکی امداد کے ساتھ امداد دینے والوں کی طرف سے دی گئی پالیسیوں کا من و عن نفاذ ہے۔ ہماری آبادی 70فیصد دیہات میں رہتی ہے۔ اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دیہات میں رہنے والے لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کی ترجیحات میں بچوں کی تعلیم کبھی شامل ہی نہیں رہی۔ اکثر والدین کو یہی علم نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیہاتی بچوں کو سکول کے بعد اپنے والدین کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا ہے۔ دیہات میں دو فیصد سے زیادہ والدین اساتذہ سے رابطہ ہی نہیں رکھتے۔ وہ فصل کی کٹائی کے موسم میں بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے فصل کی کٹائی پر لگا دیتے ہیں۔ بعض والدین تو اس طرح کے بھی دیکھے گئے ہیں کہ جب گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا تو کہتے ہیں ’’ جا پُتر! سکول پھیرا مار آ، استاد کدھرے تیرا ناں ای نہ کٹ دیوے‘‘۔ ( جائو بیٹا! سکول میں ایک چکر لگا آئو، کہیں ٹیچر آپ کا نام ہی سکول سے خارج نہ کر دے)۔
والدین کا یہ رویّہ ہماری تعلیمی پستی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جبکہ امداد دینے والی این جی اوز اور ممالک ترقی یافتہ ملکوں میں نافذ پالیسیوں کا یہاں نفاذ چاہتے ہیں۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں سو فیصد والدین کے نزدیک ان کے بچوں کی تعلیم پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ مگر ہمارے اعلیٰ دماغ ارسطو محض فنڈز کے حصول کی خاطر زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے ’’ آمدہ ہدایات‘‘ کو نافذ کر دیتے ہیں۔
2۔ ’’ مار نہیں پیار ‘‘ کے سلوگن نے بھی ہمارے تعلیمی زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مار میں صرف جسمانی سزا ہی شامل نہیں کی گئی بلکہ طالب علم کو گھورنا، زبانی سرزنش کرنا بھی اسی زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ آپ بچے کو سبق نہ آنے پر ڈانٹ نہیں سکتے۔ اسے بطور سزا پانچ منٹ کے لیے کھڑا نہیں کر سکتے۔ اس کی عزتِ نفس کو کسی حال میں مجروح نہیں کر سکتے۔ آپ بطور ٹیچر بچے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس ڈیسک پر اسے بیٹھنا ہے اس ڈیسک کو صاف کر لے۔ اس بات کو بچے کی شان میں گستاخی سمجھا جائے گا اور آپ کو پیڈا ایکٹ 2006کی لٹکتی تلوار کا سامنا کرنا ہو گا۔ اگر بچہ سارا سال سکول نہیں آتا، آوارہ پھرتا ہے، تب بھی آپ اس کا نام سکول سے خارج نہیں کر سکتے۔ مسلسل غیر حاضریوں کی وجہ سے وہ تعلیمی لحاظ سے بالکل کورا بھی ہو گیا ہے تو ٹیچرز اس کا بورڈ کے امتحان کے لیے ریگولر داخلہ بھیجنے کے پابند ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے خراب رزلٹ کی ذمہ داری استاد پر ہو گی اور اسے اس کی سزا ملے گی۔
اگر سکول میں خاکروب موجود نہیں ہے۔ تو سکول کی صفائی کے فرائض بھی استادِ محترم کو سرانجام دینے ہوں گے۔ ( یاد رہے کہ پنجاب کے سرکاری پرائمری سکولوں میں درجہ چہارم کے ملازمین دینے کا تصور بھی نہیں ہے) میں نے ایک ہائیر سیکنڈری سکول کے گریڈ 19کے پرنسپل کو خود سکول کے واش رومز کی صفائی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہاں خاکروب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بار بار کی درخواست کے باوجود نیا خاکروب بھرتی نہیں کیا گیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ سات سال بعد بھی وہاں خاکروب کی سیٹ خالی ہے۔ اب خود ہی سوچیں کہ جہاں اساتذہ بنچ، ڈیسک اور کرسیاں حتٰی کہ واش رومز بھی صاف کرتے ہوں۔ وہ طلبہ سے پانی کا ایک گلاس بھی نہ منگوا سکتے ہوں۔ طلبہ کو پڑھنے پر مجبور نہ کر سکتے ہوں۔ غیر حاضری پر انہیں ڈانٹ نہ سکتے ہوں۔ معمولی سی خطا ( یا طلبہ کی شان میں گستاخی) پر استاد کے خلاف جھوٹی سچی صرف ایک درخواست پر استاد کو صفائی کا موقع دئیے بغیر معطل کر دیا جاتا ہو اور بار بار دفاتر کے چکر لگوائے جاتے ہوں وہاں آپ یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ تعلیمی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ استاد کی کوئی عزتِ نفس رہنے ہی نہیں دی گئی۔ اسے بیک وقت مالی، چپڑاسی، خاکروب، کلرک، کمپیوٹر آپریٹر، فوٹوگرافر اور چوکیدار بنا دیا گیا ہے مگر استاد نہیں رہنے دیا گیا۔
3۔ موبائل فون کے بے تحاشہ استعمال نے بھی طلبہ کو تعلیم سے غافل کر دیا ہے۔ نہم جماعت کے طلبہ ابتدائی ٹین ایج میں ہوتے ہیں۔ یہ عمر جذباتی لحاظ سے بڑی حساس ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے تحاشہ استعمال کچی عمر کے طلبہ کو وقت سے پہلے نہ صرف میچور کر رہا ہے بلکہ ان کے اصل مقصد سے بھی ہٹا رہا ہے۔ موبائل فون میٹرک کے طلبہ کے لیے خاص طور پر زہرِ قاتل ہے۔ یہ طلبہ کی ضرورت نہیں، عیاشی ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ مخلص ہیں اور ان کا تعلیمی مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو موبائل فون استعمال نہ کرنے دیں۔
4۔ حکومتی بے تدبیریاں۔ دیکھا جائے تو حکومتی پالیسیاں بھی تعلیمی سسٹم کی ناکامی کی ذمہ دار ہیں۔ سکولوں میں ہفتہ کھیل، ہفتہ صفائی، ہفتہ ڈینگی، ہفتہ بزمِ ادب اور جانے کون کون سے ہفتے منائے جاتے ہیں، نہیں منایا جاتا تو ہفتہ تعلیم نہیں منایا جاتا۔
5 ۔ جماعت ہشتم تک طلبہ کو فیل نہ کرنے کی حکومتی پالیسی بھی نہم کلاس کے رزلٹ کی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اساتذہ کو اجازت دی جائے کہ عادی غیر حاضر اور پڑھائی میں کمزور طلبہ کو فیل کر سکیں۔
ایک ضروری گزارش یہ بھی ہے کہ ہمارے لنڈے کے دانشور سوشل میڈیا پر متحرک ہو گئے ہیں جو والدین کو نصیحت کر رہے ہیں کہ نمبروں کے چکر میں اپنی اولاد کو ذہنی دبا کا شکار نہ کریں۔ آپ کے دیئے گئے طعنوں سے آپ کا بچہ ہمیشہ کے لئے اندر سے مر جائے گا۔ ان دانشوروں سے سوال تو بنتا ہے نا، کہ کیوں خراب رزلٹ آنے پر بچے سے بازپرس نہ کی جائے؟ والد سارا دن گرمی سردی کی پروا کئے بغیر محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کے تعلیمی اخراجات پورے کرے اور اولاد امتحان میں کم نمبر لے یا فیل ہو جائے تو ایسی اولاد کی سرزنش کیوں نہ کی جائے؟ طلبہ اگر اپنے کام یعنی حصولِ تعلیم میں سنجیدہ نہیں ہیں تو ان کی مناسب گوشمالی کی جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ آپ کے پاس آخری موقع ہے۔ اگر آئندہ امتحان میں بھی ایسا ہی رزلٹ آیا تو آپ کو سکول سے اٹھا کر کسی مکینک کے پاس بٹھا دیا جائے گا یا کسی کارخانے میں مزدوری کے لیے بھیج دیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button