Column

ریلوے پولیس یا مسائلستان

روہیل اکبر
ریلوے میں سفر کرنے والے ریلوے پولیس سے بھی بخوبی واقف ہونگے جو ٹرین کے ساتھ ساتھ مسافروں کے ہم سفر ہوتے ہیں جہاں ہماری ریلوے کا بھٹہ بیٹھا ہوا ہے وہی پر ہماری ریلوے پولیس کا بھی حشر نشر ہو چکا ہے ایسا شائد اس لیے ہے کہ اوپر والے اپنی موج مستیوں میں گم ہیں اور نیچے والے اپنی خواری کاٹ رہے ہیں ویسے تو ہمارے ہر محکمے کا برا ہی حال ہے لیکن ریلوے ایسا ادارہ ہے جو خسارے سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا حالانکہ کسی ٹرین میں کوئی سیٹ خالی نہیں ہوتی یہاں تک کہ لوگ نیچے فرش پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں انکے مقابلہ میں پرائیوٹ ٹرانسپورٹ یا انہی کی کی ہوئی پرائیوٹ گاڑیاں دیکھ لیں کہ وہ کتنا منافع کما رہی ہیں لیکن ریلوے میں ریلوے والے اپنے محکمہ کو کھا رہے ہیں ریلوے ورکشاپس میں کرپشن کی نئی نئی کہانیاں ہیں لوٹ مار کا ایسا سلسلہ ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا خیر میں بات کر رہا تھا ریلوے پولیس کی جو ریلوے واچ اینڈ وارڈ 1925ء میں محکمہ ریلوے کے حصے کے طور پر قائم کیا گیا تھا جس کی سربراہی زیادہ تر ریلوے سروس کے افسران ہی کرتے تھے کچھ عرصہ صوبائی پولیس سے افسران ریلوے کے ساتھ ڈیپوٹیشن پر رہے جو اب بھی ہیں ریلوے واچ اینڈ وارڈ کا بنیادی کام چوری، ریلوے اشیاء کی غیر قانونی استعمال کی روک تھام، تخریب کاری کے خلاف ریلوے تنصیبات کا تحفظ اور ملک میں ریلوے کے ذریعے ٹرانزٹ میں سامان کی محفوظ نقل و حمل تھا واچ اینڈ وارڈ کی
سربراہی چیف سپرنٹنڈنٹ کر رہے تھے جو ڈیپوٹیشن پر ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسران ہوتے پورے مغربی پاکستان کے لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس ( ریلوے) کی ایک پوسٹ بنائی گئی جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے اور اس کے تحت سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ( ریلوے) کی دو پوسٹیں ایک لاہور اور ایک کراچی میں بنائی گئیں ون یونٹ کی تحلیل کے بعد جون 1970ء میں ریلوے پولیس اپنی سابقہ شکل میں واپس آگئی۔ ڈی آئی جی ( ریلوے) کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور پنجاب میں ایک اے آئی جی ریلوے پولیس ( ایس پی کے عہدے کا) مقرر کیا گیا سندھ میں ریلوے پولیس کی سربراہی ایک سپرنٹنڈنٹ ریلوے جبکہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کرتے تھے نظام کے اس دوغلے پن نے مسائل پیدا کیے جس کے نتیجے میں دائرہ اختیار کے تنازعات
پیدا ہوئے واچ اینڈ وارڈ کے انچارج کا خیال تھا کہ وہ محکمہ ریلوے کا حصہ ہونے کے ناطے باہر کے پولیس افسر کے مقابلے سینئر کے سامنے زیادہ جوابدہ اور ذمہ دار ہے جبکہ باہر کے پولیس افسر نے انچارج واچ اینڈ وارڈ آرگنائزیشن کے ساتھ تفتیش اور مقدمات کی کارروائی کے حوالے سے اچھی طرح سے ہم آہنگی کو مناسب نہیں سمجھا اس اختلاف کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کی بہت سی کمزوریاں پیدا ہوئیں جو وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتی گئی جن کو دیکھتے ہوئے واچ اینڈ وارڈ ڈیپارٹمنٹ اور ریلوے پولیس کو پاکستان ریلوے پولیس کے نام سے ایک نئی فورس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور وفاقی حکومت نے اس مسئلے ختم کرنے کے لیے وفاقی ریلوے پولیس کے قیام کے لیے ایک آئینی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جسے عزت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے منظور کر کے ریلوے پولیس آرڈیننس 1976جاری کیا گیا جو PRPایکٹ 1977کے طور پر نافذ ہے ریل روڈ پولیس یا ریلوے پولیس ریلوے کی جائیدادوں، سہولیات، محصولات، سازوسامان ( ٹرین کاروں اور انجنوں) اور عملے کے ساتھ ساتھ مسافروں اور سامان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے ریلوے پولیس پبلک ریل ٹرانزٹ سسٹم پر بھی گشت کر سکتی ہے کچھ ممالک میں ریل روڈ پولیس کے اختیارات کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مختلف نہیں ہوتے جبکہ کچھ ممالک میں اس فورس کا کام صرف سکیورٹی گارڈز کا ہے۔ پاکستان میں اگر ہم ریلوے پولیس کا ذکر کریں تو اس ادارے میں کام کرنے والے ملازمین بھی جیل پولیس یا ہماری عام پولیس سے مختلف نہیں ہیں جہاں سے پیسے ملیں بے دریغ پکڑ لیتے ہیں اور تو اور پولیس والے ایک دوسرے کی چوریاں بھی کر لیتے ہیں آپ کسی بھی تھانے کے اندر انکے رہائشی کمروں یا پولیس لائن میں پڑے ہوئے انکے صندوق چیک کر لیں ایک نہیں بلکہ دو تالے لگے ہوتے ہیں اور اسکے باوجود ملازمین کا سامان چوری ہو جاتا ہے جیل پولیس کی تنخواہیں سابق آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ عام پولیس کے برابر کروا گئے تھے کیونکہ وہ اسی محکمہ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ریلوے پولیس کے ملازمین کی تنخواہیں عام پولیس سے بہت کم ہیں اور مراعات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ انکا آئی جی ریلوے پولیس سے نہیں ہوتا اس لیے انہیں ان کی کوئی ٹینشن نہیں ہوتی جب یہ محکمہ بنا تو اس وقت اس میں 7500کی نفری تھی جو دن بدن کم ہوتے ہوتے آج 2500اہلکار کے لگ بھگ رہ گئی ہے اس وقت پوری مسافر ٹرین میں صرف دو اہلکار ہوتے ہیں اس ادارے سے وابستہ افراد کی بے بسی کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس وقت ایک نیک نام آئی جی ریلویز فیصل شاہکار کی ہوتے ہوئے پولیس اہلکاروں کا ڈی ایف اے ( ڈیلی فیکس الائونس) بند ہے جو باقی پولیس کو تو مل رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈیلی رسک الائونس بھی نہیں ملتا ایلیٹ کمانڈو کورس پاکستان ریلوے پولیس کے کئی نوجوانوں نے کر رکھا ہے مگر ایلیٹ کمانڈو کورس الائونس بھی نہیں ملتا عرصہ دراز سے ریلویز پولیس میں نوجوانوں کی بھرتیاں ہی نہیں ہو رہیں اور حالت یہ ہے کہ آج ریلوے پولیس سے مسافر گاڑیوں میں سروسز کے ساتھ ساتھ ٹریفک کنٹرول کرنے کی ذمہ داریاں بھی انہی نوجوانوں سے لی جا رہی ہیں ریلوے پولیس میں گزشتہ 10سال سے بھرتیاں ہی بند ہیں محکمہ اپنے ریلوے تھانے کی گاڑی کو 70لٹر ماہانہ پٹرول گشت اور دیگر کاموں کے لیے دتا ہے اور موٹر سائیکل کو 10لٹر پٹرول ماہانہ ملتا ہے اور تو اور ہر ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے پیسوں پر نظر ہوتی ہے کہ وہ اپنے جی پی فنڈ سے کوئی نہ کوئی کام کرکے آئندہ زندگی کو خوشحال بنائے گا لیکن صرف اسی ادارے میں یہ فنڈز پولیس اہلکاروں کو ریٹائرمنٹ کے تین چار سال بعد کہیں جا کر ملتے ہیں وہ بھی کچھ دے دلا کر اور اگر اس دوران اہلکار اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو جائے اور خدا نخواستہ اس کی اہلیہ بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو جائے تو یہ گریجویٹی اس کے بچوں کو نہیں ملتی۔ ریلوے پولیس والے اس وقت واقعی بڑی تکلیف میں ہیں، یہ پورا محکمہ اس وقت مسائلستان بنا ہوا ہے جب تک ان کے مسائل ختم نہیں ہونگے تب تک یہ اپنی ڈیوٹی بھی ڈھنگ سے نہیں کر پائیں گے۔ حکومت ان کے مسائل کو ایک اور خسارہ سمجھ کر فوری حل کر ے، کیونکہ یہ بھی ایک عام پاکستانی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button