ColumnNasir Sherazi

کاش! میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

ماہ ِ محرم بیت گیا، ماہ ِ صفر شروع ہوا ہے، دونوں مہینے آزمائشوں اور سختیوںکے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشادِ رب العزت ہے ’’اور ہم نے آسمان سے ٹھیک اندازے کے مطابق پانی اُتارا پھر اِسے زمین میں ٹھہرایا اور یقین رکھو ہم اِسے غائب کردینے پر بھی قادر ہیں۔‘‘

پانی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک ہے، وہ اِسے کبھی روک کر اپنے بندوں کو آزماتا ہے، کبھی اِسے بھیج کر امتحان لیتا ہے، پانی زحمت کبھی تھانہ تاقیامت ہوگا، ہم نے اپنی نااہلی، اپنی سیاسی مصلحتوں کے سبب اِسے زحمت بنالیا ہے، آج نصف پاکستان زیر ِ آب آچکا ہے، بتانے والے اِسے آسمان سے برسنے والے پانی کی زیادتی بتاتے ہیں کوئی اپنی مجرمانہ غفلت اور برس ھابرس سے قوم سے جاری رکھی جانے والی زیادتی تسلیم کرنے کے لیےتیار نہیں کہ گذشتہ پچاس برس میں پانی کو ذخیرہ کرنے اور اِسے حسب ضرورت استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کیوں نہ کی گی۔ ایسا نہ کرنے والے، اِس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے، ایسے منصوبوں سے آنکھیں چرانے والے، سب کے سب قومی مجرم ہیں۔

خدا بے انصافی کیسے کرسکتا ہے، اُس نے اِس ملک میں بسنے والے بائیس کروڑ افراد کی ضرورت کے لیے پانی بھیجا، ہم نے اِسے ذخیرہ کرنے کا سوچا ہی نہیں، ہم اپنی آنکھوں سے اِنسانوں اور جانوروں کو مارے پیاس کے تڑپتے مرتے دیکھتے رہے اورخاموش رہے، اِس کا حساب اِس کے ذمہ داروں سے ہم تو نہ لے سکیں گے لیکن خالق ِ کائنات یہ حساب ضرور لے گا۔
جس بارش کو ریکارڈ توڑ بارشیں ثابت کرنے کے لیے سرکار ایڑھی چوٹی کا زور لگارہی ہے، ایسی بارشیں دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال ہوتی ہیں، وہاں اِس درجے کے سیلاب آتے ہیں نہ ایسی تباہی، یہ سب کچھ صرف پاکستان میں ہوتا ہے اور تواتر سے ہوتا ہے۔

سیلابی پانی میں جن کی زندگی بھر کی کمائی غرق ہوگئی، اِن سے ہمدردی جن کے گھر برباد ہوگئے، دل ان کے دکھ میں دکھی ہے، جن کے پیارے موت کے منہ میں چلے گئے، ان کے آنسوئوں میں میرے آنسو شامل ہیں، بے سروسامانی کے عالم میں امداد کے لیے پکارنے والوں کی آواز میں میری آواز بھی شامل ہے مگر میں خوب جانتا ہوں ہم سب کی آواز ان کے کانوں تک کبھی نہ پہنچے گی جو بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن انہوںنے کچھ نہ کرنے کا عہد کررکھا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے گھر سے نکلا تو یوں لگا جیسا دنیا بھر میں پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے، کچھ ڈھور ڈنگر پانی میں بہتے آرہے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے سدھ ہوکر تنکوں کی طرح بہتے قریب سے دور چلے گئے، ایک جگہ فوج کے جوانوں نے پانی میں بہہ کر آنے والے معصوم بچوں کی لاشیں نکال کر قطار میں رکھ دی تھیں، ہر بچے کے چہرے پر معصومیت اور ابدی سکون تھا یوں لگتا تھا جیسے موسم بہار میں ہونے والی بارش اور کیچڑ میں کھیلتے رہے ہیں، ابھی اٹھیں گے اور بعد از غسل اُجلا لباس پہن لیں گے اور ہنستے مسکراتے کوئی نیا کھیل شروع کردیں گے، ان کے مقدر میں غسل آخر تھا۔ ایک جگہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کیمپ لگایا تھا، یہ وہ ٹینٹ تھے جو عام حالات میں چار ہزار روپے میں ملتے تھے، اب ان کی قیمت چودہ ہزار ہوچکی ہے، ایک طرف مردوں کی قطاریں تھیں تو دوسری طرف تباہ حال خواتین قطار میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھیں اچانک بھگدڑ مچ گئی، مردوزن قطاریں توڑ کر ایک جانب بھاگے، وہ بھاگتے بھاگتے دورنکل گئے، بتایاگیا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی خاتون رہنما پہنچ رہی ہیں جو متاثرین میں نقد امداد تقسیم کریں گی، مذکورہ خاتون رہنما اور ان کے خاندان کے دولت مند ہونے کے دنیا بھرمیں بہت چرچے ہیں، البتہ ان کا خاوند ایک غریب مسکین ریٹائرڈ سرکاری افسر بتایا جاتا ہے۔ خاتون رہنما کے پہنچنے میں کچھ دیر تھی، مجھے کئی برس قبل سیلابوں کے موسم میں پاکستان کے دورے پر آئی انجلینا جولی یاد آگئیں، وہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے فنڈز اکٹھاکرکے پاکستان آئی تھیں تاکہ تباہ کاریوں کی زد میں آنے والوں کے دکھ بانٹ سکیں۔ اس وقت کے وزیراعظم نے انہیں ایک ڈنر کی دعوت دی جس میں وزیراعظم صاحب کے
صرف اہل خانہ اور خاص طور پر ان کی بیگم اوربیٹی شریک تھیں، انجلینا جولی نے بعد ازاں میڈیا کو بتایا کہ ان کا خیال تھا کہ مشکل میں گھرے ملک کے وزیراعظم نے روایتی مہمان نوازی کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اِس دعوت کا اہتمام کیا ہے جس کی کوئی ضرورت نہ تھیں لیکن وہ سوچ رہی تھیں کہ یہ ون ڈش ڈنر ہوگا، انجلینا کے مطابق وہ ڈائننگ ٹیبل پر آئیں تو دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ کھانے کی لمبی میز پر جو کھانا سجایاگیا تھا وہ کئی سو بھوکے افراد کیلئے کافی تھا جو کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر تھے، وزیراعظم صاحب نے خاندان کی خواتین کی انجلینا جولی کے ساتھ فقط ایک گروپ فوٹو کیلئے یہ سب انتظامات کیے جنہیں دیکھ کر افسوس ہوا۔

آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ سیاسی خاتون رہنما تشریف لائیں، انہوں نے ایک معمر سیاہ پوش خاتون کو تین مرتبہ گلے لگایا ان کی کمر تھپتھپائی، ہاتھ میں پکڑے نمکو کے تین پیکٹ تقسیم کیے، تین سو وعدے کیے اور وہاں سے متاثرین کے کسی اور کیمپ میں امداد تقسیم کرنے کیلئے روانہ ہوگئیں، یہ ویلی یلی جولی صاحبہ تھیں۔

سندھ پولیس کے ایک ایس ایچ او کو ایک سائل کے کاندھوں پر سوار ہوکر سیلابی پانی میں سے گذر کر تھانے آنے کی ویڈیو تو دنیا بھر نے دیکھ لی، اب میں آپ کو دو دل خراش منظر دکھانا چاہتا ہوں جو ابھی آپ تک نہیں پہنچے۔

ایک اور سیلاب متاثرین کے لیے لگائے گئے کیمپ میں نقد امداد تقسیم ہورہی تھی، دو کمسن بچوں کو اُنگلی لگائے ایک تباہ حال درمیانی عمر کی خاتون نظر آئی جس کا تعلق یقیناً عزت دار اور باغیرت گھرانے سے تھا، اس نے چادر سے سر اور جسم ڈھانپ رکھا تھا اسی طرح چہرے کا کچھ حصہ بھی، امداد تقسیم کرنیوالے شخص نے خاتون سے کہا کہ چہرے سے چادر ہٹائے اور اپنا چہرہ دکھائے، خاتون نے جواب دیا وہ پردہ دار ہے، غیر محرموں کے سامنے چہرہ نہیں کھول سکتی، جواب ملا چہرہ نہیں دکھاسکتیں تو پھر امداد بھی نہیں مل سکتی،

خاتون نے سماجت کرتے ہوئے کہا کہ آپ شناختی کارڈ دیکھ لیں، اس کی فوٹو کاپی رکھ لیں مگر وہ شخص نہ مانا، خاتون کا پیمانہ ٔ صبر لبریز ہوا، اُس نے کہا تم پر اور تمہاری امداد پر لعنت، جو بے پردہ ہونے پر ملے، اپنی بہن بیٹی کو یہاں لائو دنیا کو اِس کا چہرہ دکھائو میں اِسے دوگنا امداد اکٹھی کردوںگی، خاتون آنکھوں میں آنسو لیے خالی ہاتھ لوٹ گئی۔

سبزی کی دکان پر دیکھا ایک اور خاتون کمر کمر تک پانی میں گذر کر دکان تک بمشکل پہنچی، دکاندار سے کہا بیس روپے کے ٹماٹر دے دو، دکاندار نے ایک ٹماٹر تھمادیا، وہ اِسے حیرت سے تکتی رہی، پھر اِس نے کہا ایک بینگن دے دو، دکاندار نے پوچھا کونسا لمبا یا گول؟ سنجیدہ خاتون نے کہا گول، بدقماش دکاندار اُسے لمبے بینگن کی لذت و افادیت پر گھٹیا انداز میں لیکچر دینے لگا، اسی روپے میں ایک بینگن اپنے بچوں کی سبزی کے طور پر لینے کے بعد خاتون نے ایک لمبا بینگن اٹھایا اور دکاندار سے کہا یہ میری طرف سے اپنی ماں، بہن یا بیٹی کو دے دینا۔

مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا، کاش میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button