Columnمحمد مبشر انوار

قومی مفاد کا نوحہ! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

قومی مفاد کا نوحہ!

ریاستوں کی تاریخ کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ریاستیں ہمیشہ اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہیںاور اپنے مفادات کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتی البتہ اس کیلئے بیدار مغز قیادتوں کا عمل دخل بنیادی عنصر رکھتا ہے تو دوسری طرف ان کے قوم پرست ہونے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی ریاست یا اس کے حکمران اپنے ریاستی مفادات کا حصول و تحفظ کماحقہ کر سکیں اور اس کردار کی عدم موجودگی میں ریاستیںبتدریج اپنا مقام، اقوام عالم میں کھو دیتی ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے لمحہ موجود تک بد قسمت ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہاں قحط الرجال کی سی کیفیت ہے اور بالعموم ہماری سیاسی قیادت ،ذاتی مفادات اورحصول اقتدار کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتی ۔ اپنے مخالفین کیلئے ان کے اقدامات ہمیشہ انتقامی کہلاتے ہیں اور یہ وطیرہ گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل جاری و ساری ہے لیکن سیاسی قیادتیں اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے بالعموم اس حقیقت سے نظریں چرا لیتی ہیں اور اپوزیشن میں آتے ہی، بندھے ہاتھوں اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کا، شور و غوغا شروع ہو جاتا ہے۔ ملکی معیشت کے حوالے سے پاکستان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور اس معاشی دگرگوں حالت میں اپنوں کے بغیر، اغیار قطعی کامیاب نہیں ہو سکتے تھے البتہ یہ ضرور ہے کہ اغیار بلکہ دشمنوں نے حرص و ہوس کی ترغیب ہماری سیاسی؍آمر قیادتوں کو ضرور دی اور اس چنگل میں ہماری سیاسی قیادت نسبتاً زیادہ آسانی سے پھنس گئی۔ سیاسی قیادتوں کے ذاتی مفادات ،ہوس زر اور ہوس اقتدار کی وجہ سے،عالمی مالیاتی اداروں نے انہیں بآسانی قرضوں کے چنگل میں جکڑ لیاجبکہ ذاتی مالی مفادات و بدعنوانیوں نے سیاسی قیادت کو ملکی مفادات کو پس پشت ڈالنے کی کوتاہی پر کسی قسم کی ندامت سے ہمیشہ دور رکھا۔ رہی بات آمرانہ دور کی، تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں جب بھی آمراقتدار میں آئے،عالمی طاقت کو ان کی ضرورت رہی ہے اور اس دور میں عالمی طاقت کی طرف سے مالی امداد کے نام پر،بطور حلیف خدمات کے عوضانے کے طور پرپاکستان میں ڈالروں کی بارش ہوتی رہی ہے لیکن اس کے بدلے آمروں نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے مفادا ت کا تحفظ بخوبی کیا اور بدلے میں ان کا اقتدار سلامت رہا۔ جیسے ہی عالمی طاقتوں کے مفادات ،آمروں سے پورے ہوئے،عالمی طاقتوں نے ان سے کسی بھی قسم کی رو رعایت نہیں کی اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اولاً جمہوریت اقدار کا شور مچایا اور بعد ازاں آمروں کو منظرسے ہٹانے کیلئے آخری حد تک گئے۔
کسی بھی ساہوکار کی طرح عالمی مالیاتی ادارے، آج بھی روبہ عمل ہیں اور پسی ہوئی ریاستی معیشت کو سدھارنے کے غرض سے،کسی بھی ریاست کو قرض دینے کیلئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ملک کیلئے بالخصوص تیار ملتے رہے ہیں۔معاشی بحران کا پیدا ہونا اور پیدا کر دینے میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اسی طرح ایسے کسی معاشی بحران سے نپٹنے کیلئے طریقہ کار کااختیار کرنابذات خود حکمرانوں کی سنجیدگی کا مظہر ہوتا ہے، بغور دیکھیں تو پاکستان میں غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی بحران پیدا کئے گئے اور ان بحرانوں سے نپٹنے کیلئے طریقہ کار کا انتخاب ایسا رہا ہے کہ جس سے ہنگامی طور پر بحران ختم ہوتا ضرور نظر آتا ہے لیکن درحقیقت پورے معاشی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی گئیں۔ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی عالمی مالیاتی اداروں سے معاشی پروگرامز لئے لیکن ان کی ترجیحات کہیں بھی مسلسل ان عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ منسلک رہنے کی نہیں رہی بلکہ ان ممالک کے معاشی ماہرین ،ان معاشی پروگرامز کے مطابق ، نے اپنے ذرائع آمدن میں اضافہ کیا،اپنی معیشت کو دستاویز میں محفوظ کرتے ہوئے عالمی مالیاتی اداروں کا قرض مقررہ مدت میں نہ صرف واپس کیا بلکہ اپنی معیشت کو مستقبل کیلئے مضبوط بنیادوں پر استوار کرلیا۔ دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی عیاشیوں ،اللے تللوں اور ان عالمی مالیاتی اداروں کے پروگرامز پر من و عن عمل نہ کرنے کی وجہ سے،نہ صرف ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہو چکی ہے بلکہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں عالمی ساہوکار ہماری گردن پر سوار ہو چکا ہے۔ پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا ،عوام الناس کو دی جانے والی سہولتیں،جو بالعموم ریاستیں دیا کرتی ہیں، پاکستانی حکومتوں سے جبراً واپس کروا رہا ہے،نتیجہ میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور وہ مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے۔ علاوہ ازیں! ان محرکات کی وجہ سے پاکستانی روپے کی بے قدری تاریخ کی بلندترین سطح تک پہنچ چکی ہے،جس سے درآمدات کی ادائیگی میں اضافہ تو ہوا سو ہوا، روپے کی بے قدری سے بیرونی قرضوں کا حجم،جو ہمیں مقامی کرنسی سے اکٹھا کرکے دینا ہے،بھی بڑھتا جا رہا ہے۔یوں عالمی مالیاتی ادارے یکطرفہ تو کیا ہمہ جہتی حملے کرتے ہوئے، ریاست پاکستان کو دیوار سے لگاتے جا رہے ہیں لیکن ہمارے ارباب اختیار میں اتنی ہمت و اہلیت نہیں کہ اس بوجھ کو ختم کرنا تو درکنار،کہیں روک ہی سکیں۔آئی ایم ایف سے ،سخت ترین شرائط پر،عوام کی دادرسی سے ہاتھ کھینچ کر،قومی اثاثوں کی ارزاں نرخوں پر نیلامی بلکہ فروخت کرکے،مسلسل قرضوں کاحصول تو ممکن بنایا جا رہا ہے،جو زیادہ سے زیادہ چند ماہ تک ہماری مشکلات کو دور کر پائے گا اور اس کے بعد ہم پھر ہاتھوں میں کشکول لئے آئی ایم ایف کے درپر کھڑے نظر آ ئیں گے۔
اس ہنگام میں گذشتہ چند روز سے سابق وزیر خزانہ اور موجودہ ممبر سینیٹ شوکت ترین کی دو صوبائی وزراء خزانہ سے واٹس ایپ گفتگو قومی و سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور موجودہ حکومت اس گفتگو کے ایک حصہ کو پاکستان کے خلاف سازش کے طور پر پیش کرتی نظر آ رہی ہے۔ تسلیم کہ سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز کے چند جملے قابل اعتراض ہیں اور اتنے سینئر شخص سے ایسے جملوں کی توقع نہیں کی جاتی، تاہم اس ساری گفتگو کا بیشتر حصہ موجودہ صورتحال میں مستقبل کے لائحہ عمل کو واضح کررہا ہے کہ اس وقت پاکستان شدید ترین سیلاب سے متاثر ہے اور صوبائی حکومتیں اپنے وعدے کے مطابق اس پوزیشن میں نظر نہیں آتی کہ بے یارومددگار عوام سے آئی ایم ایف کے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں۔ اس گفتگو میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے گو کہ صوبائی وزرائے خزانہ نے وفاق کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کیلئے اضافی رقوم فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن یہ یقین دہانی قبل از سیلاب تھی،جو موجودہ صورت میں حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ شوکت ترین صوبائی وزرائے خزانہ کو یہی سمجھا رہے تھے اور ایک موقع پر غالباً محسن لغاری پنجاب کے وزیر خزانہ نے ان سے سوال بھی کیا کہ کیا اس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان تو نہیں ہو گا،جس کے جوا ب میں شوکت ترین نے کہا کہ کرونا کے وقت ہم نے آئی ایم ایف سے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بات کی تھی اور شرائط پر نظر ثانی کروا کر نرمی کروائی تھی،جو ایسے حالات میں ہمارا حق ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی حوالے سے پاکستانی مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جا رہی بلکہ پاکستانی عوام کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے،آئی ایم ایف سے وقت مانگا گیا ہے،شرائط میں نرمی کی بات کی گئی ہے لیکن حیرت اس امر پر ہے کہ موجودہ حکومت نے اس کوشش کوصرف پوائنٹ سکورنگ کرنے کیلئے استعمال کیا جبکہ ماضی قریب میں یہی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کیلئے شوکت ترین کی مدد مانگتی نظر آئی تھی۔ یہاں بغیر تردد کے شوکت ترین کی طرف سے لائحہ عمل حکومت کے ہاتھ بھی آ گیا لیکن اسے پاکستان کے خلاف سازش سے تعبیر کیا جا رہا ہے، نجانے ہمارے سیاسی اکابرین کے اذہان میں کیا ہے اور وہ کس طرح معاملات کو حل کرنا چاہ رہے ہیں۔دوسری اہم ترین بات ،کہ بالفرض اس گفتگو کو سازش تسلیم بھی کر لیا جائے تو کیا یہ قومی مفادات میں تھا کہ اس گفتگو کو آئی ایم ایف کے بورڈ سے قبل یوں افشا کیا جاتا؟گو کہ اس گفتگو کا اثر آئی ایم ایف بورڈ کے معمولات پر اثر انداز نہیں ہوا لیکن اس گفتگو کو افشا کرنا کسی بھی طور قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں اور ایسی حرکتوں پر ہمارے پاس قومی مفاد کا نوحہ پڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں!

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button