Editorial

آبی گذرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے زیادہ مسئلہ بلوچستان میں ہے جہاں پورے کے پورے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ زیادہ مسئلہ سندھ میں ہے جہاں 4،4 فٹ پانی کھڑا ہے۔خیموں کی زیادہ ضرورت ہے۔ بیرون ملک سے ٹینٹس منگوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کی طرف سے بھی خیمے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ این سی او سی کی طرز پر ہیڈ کوارٹر بنایا گیا ہے۔ جہاں امداد کا ڈیٹا اکھٹا ہوگا۔ 2010 کے سیلاب میں بھی کالام میں ایسی ہی تباہی ہوئی اور دوبارہ دریاؤں کے کنارے انہی جگہوں پر تعمیرات کرنے کی اجازت دے کر غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ چھ سات روزمیں کالام روڈکھول دیں گے ۔ وہ منگل کو سوات دورہ کے موقع پر متاثرین اور پھنسے ہوئے لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ ملک بھر میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے سیاسی و عسکری قیادت کئی روز سے مسلسل متاثرہ علاقوں کے دورے پر ہیں تاکہ امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ متاثرین کی ہمت بڑھاسکیں کہ قوم اِن حالات میں اُنہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ چاروں صوبوں میں سیلاب سے تباہی اوراموات اب بھی ہورہی ہیں لیکن حالات ایسے نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت اطمینان سے بیٹھ سکے۔ ایک طرف وزیراعظم میاں شہبازشریف مسلسل متاثرہ علاقوں میں جارہے ہیں تو دوسری طرف سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے، آپریشن میں حصہ لینے والے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے اور متاثرہ افراد کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کے لیے چاروں صوبوں کا اور بار بار دورہ کررہے ہیں کیونکہ پاک فوج کی امدادی سرگرمیوں سے متاثرہ عامۃ الناس کو خصوصی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے منگل کے روز کانجو کینٹ ہیلی پیڈ پر میڈیا کے نمائندوں سے بھی مختصر گفتگو کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے لیے سروے ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومتیں اور فوج مل کر کریں گے۔کالام میں کافی نقصان ہوا ہے، پل اور ہوٹل بہت تباہ ہوئے ہیں۔ اس وقت سب سے ضروری کالام روڈکو کھولنا ہے،

امید ہے 6 سے 7 دنوں میں روڈ کو کھول دیں گے، کالام میں اب بحران کی صورتحال نہیں ہے۔آرمی چیف نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے اپیل پر سامنے آنے والے ردعمل کی تعریف کی اور بتایا کہ اس اپیل کے نتیجے میں کئی کئی ٹن راشن اکٹھا ہو رہا ہے۔انہوںنے دوست اور برادر اسلامی ممالک کی طرف سے سیلاب زدگان کے لیے آنے والی امداد کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا اور بتایا کہ یو اے ای، ترکی اور چین سے امدادی سامان کی پروازیں آنا شروع ہو گئی ہیں، سعودی عرب اور قطر سے بھی پروازیں آنا شروع ہو جائیں گی، دوست ممالک نے پاکستان کو مصیبت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا، ان شاء اللہ آئندہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں متاثرین کو گھر بنا کر دینے پڑیں گے، ہم ان شاء اللہ متاثرین کو پری فیب گھر بنا کر دیں گے۔بلاشبہ دوست اور برادر مسلم ممالک کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے تعاون کیا جارہا ہے لیکن یاد رہے کہ ناقابل یقین تباہی کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر اورمتاثرین کی بحالی طویل اور صبر آزما کام ہوگا جس کے لیے بے حد وسائل کی ضرورت ہوگی۔ الحمد اللہ اِس وقت پوری قوم متاثرین سیلاب کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کی اپیل پر پرجوش ہے اور ملک میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لوگ امدادی کیمپ لگاکر متاثرین سیلاب کے لیے اکٹھا نہیں کررہے۔ پس جس کے پاس جو دستیاب ہے وہ بلاتاخیر متاثرہ بہن بھائیوں کی بحالی کے لیے پیش کررہا ہے تاکہ اُن تک پہنچے اور اُن کی بحالی تک کام آئے۔ یہاں ہم پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اِس بات پر صد فیصد متفق ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں بھی کالام میں ایسی ہی تباہی ہوئی اور دوبارہ دریاؤں کے کنارے انہی جگہوں پر تعمیرات کرنے کی اجازت دے کر غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اور تعمیرات کی اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی دریا یا قدرتی آبی گذر گاہ کا پانی اگر اس کے مختص علاقے یا کناروں سے باہر نکل کر انسانی تصرف میں موجود زمینوںیا آبادیوں میں داخل ہو جائے تو اسے دریائی سیلاب کہا جاتا ہے اسی طرح شدید بارشوں کے دوران برسنے والے پانی کا حجم اتنا زیادہ ہو جائے کہ اس کا نکاس دستیاب ڈرین اور سیوریج سسٹم کے ذریعے ممکن نہ رہے اور اس پانی کی وجہ سے گلیاں ،محلے ، سڑکیں ، پارک اور حتی کہ لوگوں کے گھر بھی زیر آب آجائیں تو اِسے بھی سیلاب ہی کہاجاتا ہے۔کرہ ارض پر سیلاب حالیہ برسوں میں ہی نہیں آرہے بلکہ ہزاروں سالوں سے آرہے ہیں کبھی زیادہ تباہی پھیلتی ہے کبھی کم۔ اِس لیے انسانوں کے پاس ہر دور میں پورا موقع رہا ہے کہ وہ تباہی سے بچنے کے لیے قبل از تباہی ایسے اقدامات کرلیں کہ سیلاب سے تباہی نہ پھیلے، لیکن بدقسمتی سے ہم اُن چند ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں پیسہ دیکر یا اثرورسوخ کے ذریعے ہر جائز و ناجائز کام کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی زد میں آتے ہیں اور پھر ہمارے لیے نقصان ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ایسا قطعی نہیں کہ صرف کالام میں ہی ناجائز تجاوزت ہیں بلکہ پورے ملک میں ایسی عمارتوں اور پختہ تجاوزات کی بھرمار ہے جو ملی بھگت سے تعمیر کی گئی ہیں اورجب کبھی قدرتی آفت یا انسانی غفلت کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو نقصان بھی اٹھاتے ہیں اور چیخ بھی اٹھتے ہیں لیکن مستقبل کے لیے ایسے غیر قانونی کاموں کا راستہ بند کرتے ہیں اور نہ ہی اُن لوگوںکا محاسبہ کرتے ہیں جو خلاف قانون ایسے اقدامات کی اجازت دیتے ہیں اِس کی واضح مثال راولپنڈی کے نالہ لئی اور روشنیوں کا شہر کراچی ہے بالخصوص کراچی میں دو سال پہلے مسلسل بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی آئی اور اِس کی وجوہات بھی سامنے آئیں کہ پانی کی گذرگاہوں اور نکاس کےراستوں کو تجاوزات کے ذریعے یا تو ختم کردیاگیا تھا یا پھر ان کی گنجائش ہی ختم کردی گئی تھی اسی لیے زیادہ بارش نے پورے کراچی کو ڈبودیا اور بلاشبہ اس کے بعد کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن بھی شروع ہوئے اور تجاوزات گرائی بھی گئیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پورے ملک میں ہمیں نظام قدرت کے خلاف ایسی سرگرمیوں کا نوٹس لیکر کسی مزید بڑے نقصان کا سامناکرنے سے پہلے ہی اپنی تیاری مکمل کرلینی چاہئے۔ صرف کالام میں ہی دریا کنارے تجاوزات نہیں ہیں بلکہ جو لوگ ملک بھر میں دریائوں کے کناروں پر آباد اور طغیانی کی صورت میں سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اُن لوگوں کو بھی محفوظ مقامات دینے چاہئیں اور کچھ نہیں تو قدیمی ریکارڈ دیکھ کر سروے کیا جائے کہ کتنے لوگ دریائوں اور دیگر آبی گذرگاہوں کے راستے میں گھر ڈال کر آبا د ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جاناچاہیے اور متاثرین کی بحالی کرتے وقت مدنظررکھنا چاہیے کہ انہیں دوبارہ دریائوں کی گذر گاہوں پر نہ بسایا جائے تاکہ خدانخواستہ ایسی صورتحال دوبارہ ہو تو جان و مال کی صورت میں وہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑے جو ابھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں ملک گیر سطح پر لائحہ عمل طے کرکے بلاامتیاز اُس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button