ColumnM Anwar Griwal

حسین وادی، سیلابِ بلا اور ہمارے رویے! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

شفاف سبز و نیلی جھیلیں، شور مچاتے جَھرنے، بلندی سے گرتی آبشاریں، خوبصورت برفیلے پہاڑ، پتھروں سے ٹکراتے بَل کھاتے دریا۔ جنت نظیر وادی سوات۔ سیاحوں کیلئے پُر کشش میہو ڈھنڈ جھیل، کالام، دو دریائوں کا سنگم بحرین۔ حسین وادیاں، خوبصورت موسم۔ یہ کیا ہوا کہ پُر سکون میہو ڈھنڈ جھیل کی جانب سے سیلابِ بلا نمودار ہوا، اور کالام کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ راہ میں جو بھی آیا، خواہ وہ کروڑوں کی لاگت سے بنا کوئی ہوٹل تھا، یا کسی کا گھر، خوبصورت تھا، یا مضبوط، کچھ بھی اُس کے آگے نہ ٹھہر سکا۔ دریا بپھر چکا تھا، ایک طوفان تھا کہ شور کرتا بڑھا چلا آرہاتھا، چیختی چنگھاڑتی لہریں ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں سمیٹ رہی تھیں۔ لہریں کیا تھیں، خوفناک اژدھے کی مانند منہ کھولے سب کچھ نگل جانے کی کوشش میں مصروف۔ پانی کے شدید بہائو میں بڑے بڑے پتھر بھی شامل تھے، جو سامنے آنے والی رکاوٹوں کو توڑنے کے کام آتے تھے۔
اس وادی میں دریا کا منظر دیکھ کر کون سنگ دل انسان ہے، جس کا دل دہل نہ جائے، جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرز نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تو قدم قدم پر موجود ہیں، کتابِ حکمت میں جن کا بارہا اظہار بھی کیا گیا ہے، مگر ہم کمزور ایمان کے لوگ بس معمول کی زندگی سے ہی واقف ہیں، یہ خالقِ کائنات کے غضب کی معمولی سی جھلک ہے، جب چاہتا ہے، کسی کو زمین بوس کر دیتا ہے، کسی کو پھر سے اٹھائے گا۔ پانچ افراد کو لوگوں نے دیکھا، گھنٹوں مدد کے طلبگار رہے، مدد نہ آئی، دُور سے لوگ بے بسی سے دیکھتے رہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی اور نہ ہی حکمرانوں وغیرہ میں کسی نے وہاں پہنچنے کی ضرورت محسوس کی۔ وہ ملکِ عدم سدھار گئے۔ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک کار دریا بُرد ہو گئی، چار گھنٹوں کی کوشش سے لوگوں نے نکالا تو تمام افراد زندہ تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طاقت اور اختیارات کھول کھول کے دکھا رہا ہے۔ سیلاب اور خرابی کی نوبت یہاں تک پہنچنے کی وجہ حکومتیں اور وہاں کے عوام بھی ہو سکتے ہیں، مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ خالص اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اس سے قبل ایک سیلابِ بلا چند روز قبل بھی آیا تھاجو جنوبی پنجاب سے ہوتا ہوا، سندھ پہنچا۔ بلوچستان میں بھی سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے یہ بھی کئی سال کا ریکارڈ توڑ گیا۔ اِس مرتبہ سیلاب اس قدر شدید ہیں کہ ہر چیز کو بہا لے جارہے ہیں، مگر ایک ستم یہ ہوتا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کو پوچھنے کوئی نہیں آتا۔ پاکستان میں آفات پر قابو پانے یا نبرد آزما ہونے کیلئے بھی ادارہ جات موجود ہیں، مگر دیکھنے میں یہی آتا ہے، کہ وہ عین وقت پراتنا کام نہیں کرتے جتنا ضرورت ہوتی ہے۔ اس دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے چند روز جنوبی پنجاب اور سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں گزارے، کہ اُن کی تنظیم ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ میدانِ عمل میں تھی اور مصیبت میں گھِرے ہوئے لوگوں کی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کر رہی تھی۔مگر مجال ہے جو کسی ٹی وی چینل نے سراج الحق کو معمولی سی بھی کوریج دی ہو، بلکہ ستم یہ بھی ہوا کہ سوشل میڈیا پر اگر کوئی سرگرمی دکھائی دی تو یار لوگوں نے دکھاوا کرنے کا الزام لگا کر مسترد کر دیاحالانکہ قومی قیادت میں صرف یہی آدمی سب سے پہلے باہر نکلا۔ دیگر کی سرگرمیاں، مصروفیات اور ترجیحات
سب کے سامنے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ الخدمت فائونڈیشن پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جاسکتا ہے، اس میں کیڑے ڈالنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، در حقیقت یہ بھی ایک فیشن ہی بن چکا ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد کے ضمن میں ہمارے عوام کے رویے عجیب ہیں۔ سیلاب کے علاقوں میں جن چیزوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے، مثلاً خیمے، شاپر وغیرہ اُن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں، دکاندار اصلی قیمت پر کیوں فروخت نہیں کرتے، اگرچہ اُن کا سودا فوری فروخت ہو رہا ہوتا ہے، مگر ناجائز منافع خوری ہمارے خون میں شامل ہو چکی ہے۔ (یہی کام رمضان المبارک یا ایسے ہی دیگر مواقع پر بھی ہوتا ہے)۔ دوسری طرف یہی تاجر جھولیاں پھیلا کر سیلاب زدگان کیلئے چندہ اکٹھا کرکے ثوابِ دارین سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ظلم کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب سرکاری طور پر ریلیف کا کام شروع کیا جاتا ہے۔ اُس میں باہر سے آنے والی امداد ہو یا پھر مخیر حضرات کی جانب سے دیا گیا سامان۔ اُن میں سے نئی اور پسندیدہ چیزیں افسران اور اہلکاران کے گھروں میں پہنچ جاتی ہیں۔ کسی ضرورت مند سے کمبل کھینچ کر کوئی رشوت خور سرکاری اہلکار اپنے بچوں کو دیتے وقت کبھی نہیں سوچتا؟ بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ کسی حکومتی عہدیدار نے ایسے علاقہ کا دورہ کرنا ہے، تو خصوصی بندوبست کر دیا جاتا ہے، کیمپ، طبی سہولیات کا اہتمام، متاثرین کی رہائش ، خوراک کا بندوبست وغیرہ کر دیا جاتا ہے۔ مگر جب دورہ ختم ہوتا ہے تو یہ عارضی ، نمائشی بندوبست سمیٹ دیا جاتا ہے، ٹھٹھے مذاق کرتے ، چیزیں جیپوں میں رکھتے سرکاری افسران و اہلکاران اپنے گھروں کو خوشی خوشی جارہے ہوتے ہیں۔

سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا ہے، چلی جانے والی جانیں تو واپس نہیں آسکتیں، نقصان کا کسی حد تک ازالہ تو ہو سکتا ہے، سر چھپانے کیلئے گھر کی ضرورت ہے۔ دیہاتی جانتے ہیں، گھر کیسے بنتے ہیں۔ انہیں کپڑوں اور خوراک کی ضرورت ہے۔ قوم اگرچہ یہ خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کو دیا ہوا سب کچھ وہاں نہیں پہنچ پاتا۔ دیانتداری کی ضرورت ہے، دل پر پتھر رکھ کر ایمانداری سے کام کرنا پڑتا ہے۔ جن پر آپ لوگوں کو اعتماد ہو، اپنا پیسہ، اپنا سامان اُسی کو دے دیں، آپ کی نیت کا ثواب تو آپ کو مل جائے گا۔ یہ بھی کہ قوم کو اجتماعی طور پر اپنے رویوں اور معاملات پر غور کرنے کی ضرورت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کیوں اس قدر غضبناک ہیں، کیا ہماری قوم اجتماعی توبہ اور معافی کی طلبگار ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button