ColumnQaisar Abbas

سیلابی مقتولین اورمخمورقلندری .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

سیلاب زرہ علاقوں میں ایک ہزار 33 افراد قتل ہو چکے جن میں تین سو معصوم بچے بھی شامل ہیں ۔ ملک بھر کے ایک سو دس اضلاع شدید متاثر ہوئے اور نو سو ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔ چھ لاکھ 82 ہزار سے زائد گھر تباہ ہوئے جن کا سامان بھی بہہ گیا ۔ سرکاری ادارے این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ لاکھ مویشی ہلاک ہوگئے۔

آفات دنیا بھر میں آتی ہیں اور نقصان بھی ہوتے ہیں مگر تیسری دنیا کے ممالک سبق سیکھنے کے بجائے کشکول اٹھا کر اپنا اور اپنے جیسوں کے گلشن کا کاروبار چلاتے ہیں۔ یہ اموات دراصل وہ قتل ہیں جن کی ایف آئی آر ہماری نا اہلی کے خلاف درج ہونی چاہیے۔ ہر سال صرف انہی علاقوں میں سیلاب آتا ہے مگر تھرڈ ورلڈ کے درجہ چہارمی ملازمین بچائو کیلئے عملی تدبیر نہیں کرتے۔ جو علاقے ڈوب چکے ہیں انہی کے لیڈرز کالا باغ ڈیم کے مخالف ہیں ۔

متاثرین سیلاب کے حوالے سے امداد کی ترسیل و تقسیم جاری ہے اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دب چکی قوم سے امداد سرکاری سطح پر یوں مانگی جا رہی ہے جیسے معاشی پالیسی سازوں نے لوگوں کو امداد دینے کے قابل چھوڑا ہوا ہے ۔
ادبی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان کے سرائیکی شاعر مخمور قلندری پر فخر کرتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اشیائے ضرورت نہ صرف تقسیم کررہے ہیںبلکہ اپنے کاندھوں پر راشن کے بورے ڈھو کر مستحق متاثرین تک پہنچا رہے ہیں ۔ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ٹرکوں سے خود آٹے کے تھیلے اتار رہے ہوتے ہیں ۔ ہمارے دوست مخمور قلندری نے اپنے باپ اور خاندان کے سترہ افراد کی لاشیں بھی اپنے کاندھوں پر اٹھائی تھیں جب دہشت گردی کی مسلط کردہ آفت نے ان سے جینے کا سبب بھی چھین لیا

تھا۔ مخمور قلندری کی شاعری میں جو انسانیت سے محبت ہے وہ عملی طور پر بھی اس کا نمونہ ثابت ہوئے ہیں ۔ مخمور قلندری کا پیغام آپ تک پہنچانا بھی ضروری ہے ۔’’ اب لوگ گھروں کو واپس جا رہے ، خشک راشن اور ٹینٹ جتنا بھی ہو سکے ان کی ضرورت ہے ۔اگر کسی کی رہائش یاراشن کا مسئلہ ہو ۔ادویات کی ضرورت ہو وہ ان سے رابطہ کریں۔ جو لوگ سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہیں وہ بھی اُن سے رابطہ کرسکتے ہیں۔

امداد تقسیم کرنے والوں کو ایک اور آگاہی کی ضرورت ہے ۔ ڈائریکٹر ارتقا آرگنائزیشن اور کالم نگار خواجہ مظہر صدیقی کے تجربات دیکھئے۔’’اسی ہفتے کا ذکر ہے کہ ہم تونسہ شریف اندرون میں جا کر شدید متاثرہ علاقے ناڑی میں راشن تقسیم کر رہے تھے کہ اس علاقے کے نوجوانوں کے ایک جتھے نے ہم سے چھینا جھپٹی کی کوشش شروع کر دی۔ مقامی لوگوں کے منع کرنے کے باوجود وہ باز نہ آئے تو ہماری ٹیم وہاں سے نکل آئی۔نشتر کے کچھ ڈاکٹرز تونسہ شریف گئے اور میڈیکل کیمپ لگایا۔ وہاں بھی ایک جتھے نے ڈاکٹروں سے ادویات چھیننے کی کوشش کی تو ایک ڈاکٹر زخمی ہو گئے ۔ میڈیکل ٹیم کیمپ ادھورا چھوڑ کر واپس آ گئی۔

ایک بار سناواں ضلع مظفرگڑھ میں ہم سوزوکی پک اپ میں امدادی سامان لے کر سیلابی علاقے میں پہنچے اور مقامی لوگوں میں راشن تقسیم کرنے لگے۔ نوجوانوں کا ایک ٹولہ ہماری ٹیم کے پاس آیا اور سامان سے بھرا پک اپ اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔ ہمارے وفد میں شامل ٹیم ممبرز نے ان کی منت سماجت کی تب کہیں جا کر وہ ٹلے۔
ایک بار جب ہم بنوں میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کے خیموں میں جا کر راشن تقسیم کر رہے تھے۔ تین لڑکے آئے اور پسٹل نکال لیا اور زبردستی چار پانچ راشن بیگ لے گئے ۔

ان واقعات کی روشنی میں ہم اب جہاں کہیں امدادی سامان تقسیم کرنے جاتے ہیں وہاں کے مقامی لوگوں کی رہنمائی اور تعاون حاصل کرتے ہیں۔ بہت زیادہ متاثرہ علاقوں میں بہت اندر جا کر مقامی جامع مسجد میں راشن تقسیم کرتے ہیں ۔ مقامی سکول و کالج، یونین کونسل یا مقامی مسجد کے امام کی معاونت سے متاثرین و مستحقین کی فہرست بناتے ہیں اور امدادی سامان تقسیم کرتے ہیں۔مقامی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کو بھی اطلاع کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔‘‘
جب تک تیسری دنیا کے حکمران شعوری طور پر بالغ نہیں ہوتے اپنے آفت زدہ بھائیوں کی مدد ہم نے ہی کرنی ہے اور شاید ہر سال کرنی ہے کیونکہ سبق سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button