ColumnRoshan Lal

سیلاب متاثرین او ر بیرونی امداد .. روشن لعل

روشن لعل

 

پاکستان کا شما ر دنیا کے ان چند ملکوں میں ہوتا ہےجہاں کوئی ایسا بڑا پراجیکٹ نظر نہیں آتا جو معمول کے حالات میں بھی بیرونی امداد یا قرضوں کے بغیرپایہ تکمیل تک پہنچا ہو۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ یہاں جن حالات کو معمول کے مطابق سمجھا جاتا ہے وہ بھی اصل میں غیر معمولی ہوتے ہیں۔ سیلاب کی آفت میں گھرے پاکستان کے موجودہ حالات کو محض غیر معمولی سمجھنے کی بجائے، ہنگامی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ذرا تصور کریں کہ جو ملک معمول کے مطابق یا غیر معمولی حالات میں بھی بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کرتا ہو، اسے ہنگامی حالات میں بیرونی امداد کی کس قدر ضرورت ہوگی۔ ہمارے حکمرانوں اور عوام کے رویوں کی وجہ سے بیرونی دنیا میں ہماری ریاست کے متعلق شاید ہی کبھی اچھی رائے قائم ہوئی ہو مگراس کے باوجود ماضی میں یہ ہوتا رہا کہ ترقی یافتہ ملکوںکے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے کسی بھی آفت کے دوران ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ حالیہ مون سون کے دوران سوات، گلگت بلتستان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور ، مکمل بلوچستان اور پورے سندھ میں برسنے والی غیر معمولی بارشوںکی وجہ سے سیلاب نے جو تباہیاں برپا کی ہیں پوری دنیا اس سے آگاہ ہے، ان تباہیوں سے نمٹنے اور نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے اس مرتبہ بھی ہم بیرونی امداد کے متمنی ہیں۔ ملک میں برپا ہونے والی بد ترین تباہیوں کے دوران قبل ازیں ہماری جو تمنا ہوتی تھی وہی اب بھی ہے مگر بیرونی دنیا ماضی کی طرح ہماری امداد پر مائل نظر نہیں آرہی۔ سیلاب کی آفت کے دوران بیرونی دنیا کا ہمارے لیے ظاہر کیا گیا رویہ ہر طرح سے تشویش ناک ہے مگر شیخ رشید نے اس رویے پر کسی قسم کی پریشانی ظاہر کرنے کی بجائے کسی قدر چہکتے ہوئے مہر تصدیق ثبت کی کہ بیرونی ممالک میں سے کوئی بھی شہباز شریف حکومت کو پھوٹی کوڑی کی امداد دینے کیلئے تیار نہیں۔ شیخ رشید نے جو کچھ بھی کہا فی الحال اسے غلط قرار نہیں دیا جاسکتاکیونکہ ماضی میں سیلاب یا زلزلے جیسی کوئی آفت برپا ہونے کے فوراً بعد یہاںبیرونی امدادکا سلسلہ شروع ہو جایا کرتا تھا مگر اس مرتبہ درخواستوں کے باوجود ابھی تک ہمارے ہاتھ خالی نظر آرہے ہیں۔

شیخ رشید نے یہ تو کہہ دیا کہ بیرونی دنیاشہباز شریف حکومت کو امداد میں پھوٹی کوڑی دینے کیلئے تیار نہیں مگر وہ ان اسباب کو بیان کرنے سے شاید شرما گئے جن کی وجہ سے بیرونی ممالک نے پاکستان کیلئے یہ رویہ اختیار کیا۔ شیخ رشید کیلئے یہ تصور عام ہے کہ شرم یا شرمانے جیسے کسی لفظ کا ان کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ ان کی اس شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے شاید ان کیلئے یہ کہنا درست نہیں کہ وہ شرما گئے۔ لہٰذا شیخ صاحب کیلئے شرمانے جیسا کوئی لفط استعمال کرنے کی بجائے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر بیرونی دنیا ہمیں امداد دینے سے گریزاں ہے شیخ رشید انہیں بیان کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ شیخ رشید کی ہچکچاہٹ بلاوجہ ہر گز نہیں ۔ ان کی ہچکچاہٹ کی اصل وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی جس حکومت میں شیخ رشید کو عمران خان کے بعد سب سے زیادہ کارگر سمجھا جاتا تھا اس حکومت نے انتہائی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیرونی دنیا کو پیغام دیا تھا کہ وہاںسے پاکستان کو کسی آفت سے نمٹنے کیلئے جو امداد دی جاتی ہے اس میں ہمارے حکمران خرد برد کر لیتے ہیں۔ اگر اب بھی کسی کو مذکورہ بات سمجھ نہ آئی ہو تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ ڈیلی میل برطانیہ کے ڈیوڈ روزنے جولائی 2019 میں سٹوری شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف نے بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب اس فنڈ میں خرد برد کی جو برطانیہ نے پاکستان کو2005 کے زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے فراہم کیا تھا۔ واضح رہے کہ ڈ یلی میل میں میاں شہباز شریف کے خلاف شائع شدہ کہانی کے آغاز میں ڈیوڈ روز نے یہ بھی کہا تھاکہ ان کا اخبار برطانوی حکومت کے عوام سے حاصل کردہ سالانہ ریونیو کے سات فیصد حصے کے ضرورت مند ملکوں کیلئے مختص کیے جانے کو اسی لیے چیلنج کرتا ہے کیونکہ برطانوی ٹیکس دہندگان کی جائز آمدن سے وصول کیا گیا پیسہ امداد حاصل کرنے والے ملکوں میں ناجائز طور پر خرد برد کر لیا جاتا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امداد دینے والے کسی ملک میں شائع ہونے والی ایسی کہانیوں کا اس ملک کے عوام پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور وہاں کی حکومتیں امداد کی فراہمی

جیسے کام کرتے ہوئے کس قدر دبائو کا شکار ہو سکتی ہیں۔ میاں شہباز شریف اور نون لیگ کے ترجمانوں نے جہاں ڈیوڈ روز کی سٹوری کو رد کیا وہاں یہ بھی کہا تھاکہ اس کی کہانی کیلئے تمام تربے بنیاد مواد عمران خان کی حکومت کے مشیر شہزاد اکبر نے فراہم کیا تھا۔ اس تسلسل میں یہ بھی کہا گیا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر شہزاد اکبر ڈیوڈ روز کو مواد فراہم کرنے کی بجائے پاکستان میں ہی نیب کے ذریعے کوئی نیا ریفرنس تیار کرالیتے۔اس طرح کے اقدام سے شہباز شریف کے خلاف چاہے ایک نیا کیس بن جاتا مگر برطانیہ میں ایسے لوگوں کے مئوقف کو تقویت نہ ملتی جو ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے غریب اور آفت زدہ ملکوں کو دی جانے والے امداد کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملک اور بیرونی دنیا اپنی شاندار روایات کے برعکس اگر اس وقت پاکستان کی مدد کرنے کی طرف مائل نہیں ہیں تو اس کیلئے جہاں عمران حکومت میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہ چکے شیخ رشید اور شہزاد اکبر جیسے لوگ ذمہ دار ہیں وہاں ہماری ریاست کے اس کردار کا بھی ہاتھ ہے جس پر نہ صرف افغان جہاد میں حصہ لینے اور دہشت گردی کی جنگ میں صف اول کا اتحادی بننے کے باوجود تحفظات کا اظہارہوا بلکہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں سے پھرنے پر بھی اعتراضات سامنے آتے رہے۔

ہمارا ماضی جیسا بھی رہا ہو، اس وقت ملک کے طول وعرض میں موجود سیلاب زدگان کا حال بہت برا ہے ۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر ناقد بن کر بیٹھے لوگ حکومتوں پرچاہے جتنی بھی جائز یا ناجائز تنقید کر لیں مگر یہ ضرور یاد رکھیں کہ ریاست کہ پاس اتنے وسائل ہر گز نہیں کہ سیلاب زدگان کے تمام دکھوں کا کما حقہ مداوا ہو سکے ۔ حکومتوں پر ان کی کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے تنقید ضرور کریں مگر ان وسائل کے استعمال نہ کیے جانے کا روناہر گز نہ روئیں جو ریاست کے پاس موجود ہی نہیں ہیں۔ موجودہ صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ میڈیا شیخ رشید جیسے لوگوں کے بیانات نشر کرنے کی بجائے اس بات پر توجہ دے کہ ان آسودہ ملکوں اور بین الاقوامی فلاحی اداروں کو سیلاب زدگان کی امداد کی طرف کیسے راغب کیا جائے جو ہمارے جیسے ملکوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button