CM RizwanColumn

جھوٹ کی سیاست کامیاب کیوں؟ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

المیہ یہ نہیں کہ سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کے جھوٹ منہ مانگی قیمت پر دھڑا دھڑ فروخت ہورہے ہیں۔نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ وہ سیاست دان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کیلئے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب عوام امیدواروں کے پراعتماد ہونے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوں۔ برطانیہ میں یونیورسٹی آف باتھ اور جرمنی میں یونیورسٹی آف کونسٹنز میں ماہرین معیشت نے 308 لوگوں پر انتخابی تجربہ کیا اور اس تجربے سے ظاہر ہوا کہ سیاست میں ترقی وہ امیدوار کرتے ہیں جو اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کرنے پر سب سے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں ماہرین معیشت نے قابل اعتماد ہونے کی اہمیت کو آزمانے اور یہ دیکھنے کیلئے کہ مختلف انتخابی مواقع پر افراد کا ردعمل کیا ہوتا ہے، گیم تھیوری کے تجربے کا اہتمام کیا۔ اس تھیوری کے بعد محققین کے نتائج نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ وہ امیدوار جن کا نامزدگی کے عمل میں کامیابی کا امکان سب سے زیادہ رہا وہ لوگ تھے جنہوں نے عہدے پر انتخاب کے بعد سب سے زیادہ وعدہ خلافی کی۔ اس تحقیق سے یہ بھی اجاگر ہوتا ہے کہ انتخابی مہم میں ایسے امیدواروں کا جیت جانا زیادہ حیران کن نہیں جو جھوٹ بولتے ہیں۔ اس باوثوق اور مستند تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جو امیدوار زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح عہدہ حاصل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔تاہم سسٹم کی شفافیت اور سیاستدانوں کے محب وطن اور عوام دوست ہونے سے اس ظلم کو روکا جاسکتا ہے۔
قابل تشویش بات یہ نہیں کہ ایک پاپولر سیاستدان جھوٹ بولتا ہے بلکہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ اس کا جھوٹ بکتا ہے اور وہ جھوٹ کے عوض ایک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے اور چونکہ وہ جھوٹ کے سہارے آنے والا حکمران ہوتا ہے اس لیے اس سے خیر کی توقع ہر گز نہیں کی جاسکتی وہ ایک مستقل خطرہ ہوتا ہے۔ سسٹم چونکہ اس کو راستہ دیتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک جھوٹا حکمران تھا اور اس کے بعد بھی ایک جھوٹا ہی مسلط ہوگا کیونکہ ان سب کو پتہ ہے کہ جھوٹ ہی ان کی کامیابی اور حکمرانی کا نقطہ آغاز ہے۔ اس ساری صورتحال سے جو نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔
پاکستان جیسے سسٹم زدہ ملک میں 1970کی دہائی میں ڈالر پچاس روپے سے کم تھا اور اب دوسو سے زائد ہے۔ بیروزگاری، غربت، جہالت اور لا قانونیت روز افزوں ہے لیکن حکمران طبقہ جھوٹ کو ہی پیرومرشد بناکر قوم کے گلے کا طوق بھاری سے بھاری اور روز بروز مزید نوکیلا اور زہریلا کرتا جا رہا ہے۔ موجودہ دور میں انٹرنیٹ نے جھوٹ کے اس سیاسی کاروبار کو اب اپنے وسیع تر دامن میں جگہ دے دی ہے لہٰذا اب وہی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں کامیاب ہورہی ہیں جو اپنا جھوٹ انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے کا کام کررہی ہیں۔ اس انٹرنیٹ کو موجودہ دور سیاست کا سونامی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے آنے سے روایتی میڈیا اور ابلاغ کے باقی طریقوں پر ایک ضرب پڑی ہے۔ وہ اس لیے کہ انٹرنیٹ نے لوگوں کو زبان دی ہے۔ ابلاغ کے اس نئے نظام میں عوام کو اپنی بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان کے وہ لوگ جو دور دراز ملکوں میں کام کرتے تھے اب اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں کے زیادہ قریب آ گئے ہیں۔ وہ ملکی سیاست میں بھی براہ راست شامل ہو گئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کے بہت سے
پلیٹ فارم بن گئے ہیں جن میں ٹویٹر، فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام اور ٹیلی گرام قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ہزاروں کی تعداد میں پلیٹ فارمز بن گئے ہیں جو لوگوں کو آپس میں جوڑ رہے ہیں۔ان پلیٹ فارمز پر سربراہان مملکت، وزرا، مختلف امور کے ماہرین، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز غرض ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ کوئی بھی کسی سے بھی کسی بھی وقت رابطہ کر سکتا ہے اور کسی بھی معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا نے سیاست میں انقلاب برپا کیا ہے۔ عین اسی طرح اس نے زندگی کے ہر میدان میں اپنا اثر جما لیا ہے۔ اگر تعلیم کا شعبہ لے لیں تو دنیا کے صف اول کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور ان کی لائبریریوں کے پاس پہنچنا ایک کلک کی بات ہے۔ اسی طرح معاشی ترقی میں بھی اس کا جادوئی کردار ہے۔ کمپنیوں کیلئے اپنے مصنوعات بیچنا ہو یا کسی فلم کی تشہیر کا معاملہ ہو سب سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کے فوائد دیکھیں تو اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔
لیکن جہاں اتنے فوائد ہوں وہاں کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اطلاعات اور خبروں کی ترسیل کا ایک تیز ترین ذریعہ بن گیا وہاں بدقسمتی سے کچھ مفاد پرست اور زر پرست لوگوں نے اس کے ذریعے جھوٹ کا پھیلائو شروع کر دیا۔ شروع میں کسی پروڈکٹ کو بیچنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا گیا جو اب بھی جاری ہے۔ اس کا براہ راست نقصان صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے جب وہ کوئی ایسی پراڈکٹ خریدتے ہیں جس کی تشہیر میں جھوٹ سے کام لیا گیا ہو۔ اس کا اثر صارف کی جیب ہر پڑتا ہے۔مختلف مصنوعات کی جھوٹی تشہیر نے آہستہ آہستہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی جھوٹ کو فروغ دیا۔ انفارمیشن کے نام پر ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کا پھیلائو ہونے لگا۔ ان سب کے پیچھے مفاد پرست گروپ ہوتے ہیں۔ جو اپنے کسی مذموم مقصد کے حصول کیلئے مسلسل جھوٹ پھیلاتے ہیںاور بدقسمتی یا کم علمی کی وجہ سے معاشرے میں اس کا اثر لیا جا تا ہے۔ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجے میں معاشرے کے اندر بے چینی پھیلنے لگتی ہے۔ جس کا براہ راست اثر قوموں کی مجموعی زندگی پر پڑتا ہے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں جس طریقے سے سیاسی جماعتیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلا رہی ہیں اور عوام جس تیزی سیے اس پر یقین کرتے ہیں یہ نہایت خطرناک ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے ملک کسی بہت بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ گیا ہو اور عوام اپنے ہی دشمن کا ساتھ اس طرح دیں کہ جیسے وہ ان کا مسیحا ہو۔ اس طریقہ جنگ کیلئے کچھ دانشور ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی جنگ جو جدید ہتھیاروں کے ساتھ جدید سائنسی طریقوں کو بروئے کار لاکر لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر ملک کو اندرونی خلفشار اور بے چینی کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس طریقہ کار کا سب سے پہلا نشانہ سچ ہوتا ہے۔ یعنی اس جنگ میں سچ کو سب سے پہلے مار دیا جاتا ہے اور یقین کیجئے کہ اس کو ماردیا گیا ہے۔ ملک میں ساری کی ساری سیاست جھوٹ جھوٹ اور صرف جھوٹ پر چل رہی ہے سچ ناکام چور ڈاکو اور بددیانت ہوگیا اور جھوٹ کو اکثریت نے سچ مان لیا ہے۔ کیونکہ جھوٹ کے علمبردار سیاستدانوں نے چانکیہ، میکاولی اور گوئبلز کے فلسفے کے مطابق اپنے اہداف کے حصول کیلئے جھوٹ کو اس انداز میں پھیلا دیا ہے کہ لوگ نہ صرف اس پر یقین کر چکے ہیں بلکہ اس کو نصب العین بنا کر اس کیلئے جان تک دینا اپنی ذمہ داری سمجھ بیٹھے ہیں۔ چند سال پہلے اس قسم کی جنگوں کا تجربہ مشرق وسطیٰ میں کیا گیا۔ جس میں مصر، تیونس، شام اور لیبیا کے اندر عرب سپرنگ کے نام پر حکومتوں کے تختے الٹائے گئے اور بڑے پیمانے پر خونریزی کی گئی۔ جن ملکوں میں یہ تجربات کیے گئے وہ ابھی تک بحرانوں کی لپیٹ میں ہیں۔
اس کام کو منظم اور مربوط سائنس کا استعمال کر کے پچھلے چند سالوں سے پاکستان کے اندر بھی شروع کیا گیا ہے۔ پاکستان کے حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہی کہانی یہاں بھی شروع ہے۔ کہانی کے کردار سب کے سامنے ہیں۔ روزانہ لاکھوں کے حساب سے پبلک پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا پر جھوٹ بولے اور پھیلائے جاتے ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس پر یقین بھی کر رہی ہے۔ جس سے معاشرہ ایک واضح تقسیم کا شکار ہو گیا ہے۔ لوگوں کے آپس میں سیاسی اختلاف نفرتوں اور دشمنی کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ایک دہائی پہلے عوام جن اداروں کی بے پناہ عزت کرتے تھے آج ان اداروں کے خلاف ایک منظم مہم چلا کر ان اداروں کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ آئین کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ ان حالات میں اکثر پرانی محب وطن سیاسی پارٹیاں انہی پرانے طریقوں سے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں جو غیر موثر ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ یہ صلاحیت نہیں رکھتیں کہ اس کا موثر جواب دے سکیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر کچھ صحافی نما اینکرز بھی اس نئی جنگ کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں۔ بس پرانے آزمائے ہوئے نسخے استعمال کئے جارہے ہیں جو اب ایکسپائر ہوچکے ہیں۔ یہ سائنسی جنگ ہے جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہو رہا ہے۔ جس میں سائنسی ڈیٹا کی مدد سے مذموم اہداف حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اگر ان حالات سے نکلنا ہے تو اس کیلئے باقاعدہ سائنس اور ڈیٹا کا استعمال کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ نہ یہ روایتی جنگ ہے اور نہ ہی روایتی طریقے سے اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں بھی اب نئے سرے سے سوچنا ہو گا۔ نئی منصوبہ بندی سے آگے بڑھنا ہو گا اور اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو پھر کوئی معجزہ بھی ہمیں ان حالات سے باہر نہیں نکال سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button