ColumnImtiaz Ahmad Shad

معاف کر دیجیے! ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

بطور مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ یعنی مجرم، خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانی، خطائوں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتائوکے بجائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ، اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کا نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپﷺ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سے روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔آپﷺکو دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے، آپﷺ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے، آپﷺ کے مقدس جسم کو تیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، ذہنی کوفت دینے والے، آپﷺ پر ساحر، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپﷺ کو ہجرت پر مجبور کرنے والے، آل و اصحابؓ کو شہید کرنے والے، حتی کہ آپﷺ کی جان کے پیاسے اور کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپﷺ کی دسترس میں آئے تو آپﷺ نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا، بلکہ اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھا اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرا ڈال دیا۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خُوش گوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد ﷺنے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو کُھلے اور صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چونکہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی آپﷺ کے اپنے عفو و درگزر کے ان گنت واقعات ملتے ہیں۔ حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا: تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنّت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کر دیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلہ رحمی کا سلوک کرے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہوکر آئے تو اس کا عذر قبول کرے، خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔(مستدرک حاکم)حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہمارے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں، وہ کون سی تین عادات ہیں؟ آپﷺ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کرلو تو جنّت میں داخل ہو جانا۔آج ہمارے معاشرے کو بدلہ، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر شخص تیر کے مقابلے میںتوپ نکالے بیٹھا ہے۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یکسر خالی ہو رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم در در بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور کوئی ہماری صدا پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔کسی ایک شخص سے غلطی سر زد ہو جائے تو ہم اس سے جڑی ہر شے کو تہہ و بالا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ہم میں سے اکثر اپنی غلطیوں کی معافی چاہتے ہیں مگر دوسروں کی خطائیں معاف کرنے کو تیار نہیں۔ہر وقت اس انتظار میں رہتے ہیں کہ فلاں سے کوئی خطا ہو اور ہم اسے نشان عبرت بنائیں۔ہر بات پر مخالف کو نشان عبرت بنانے کی اس روش نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔عفو و در گزر کو ترک کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو ٹکڑے ہو گیا،باقی ماندہ حصہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب ڈوبتی ہوئی معیشت پر توجہ دینے کے بجائے مخالفین کو نشان عبرت بنانے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ابھی وقت ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔
آئیے عزم کریں! محض ارادہ نہیں بلکہ فیصلہ کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکو پسند ہو۔ معاشرے کو خُوشگوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ایمان کی طاقت اور پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں تا کہ قیامت کے دن اللہ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے ۔طاقتور وہ نہیں جو اقتدار ملنے پر دوسروں کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ کرے بلکہ طاقتور وہ ہے جسے اللہ طاقت عطا کرے تو وہ معاف کرنے والوں میں شامل ہو جائے۔تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ کل تک جو یہاں تخت نشیں تھے ان کے تکبر اور غرور نے انہیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button