Editorial

ملکی معیشت کیلئے برُی خبریں

ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے روپے کی قیمت مزید گرگئی ہے، سٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے، ڈالر گذشتہ روز 225کا ہوگیااور ڈالر کی بڑھتی قیمت مسلسل روپے کی بے قدری میں اضافہ کررہی ہے۔ گذشتہ روز بھی سٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار رہی اور عالمی ادارے فچ نے پاکستان کی آئوٹ لک کو منفی کر دیاہے، اس کی وجوہات بھی سیاسی عدم استحکام ۔

گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کا آغاز تیزی سے ہوا جو کچھ ہی دیر برقرار رہی جس کے بعد شروع ہونے والا مندا شدت اختیار کرتا گیا جو آخر تک جاری تھا۔ اس دوران انڈیکس میں ایک موقع پر 1152پوائنٹ کی بھی کمی ہوئی مگر آخر میں 174پوائنٹ کی ریکوری سے یہ سطح کم ہو گئی۔ سٹاک مارکیٹ میں مندے کی ابتدا ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کم ہونے سے ہوئی اور اس میں مزید اضافہ ملکی سیاسی صورتحال میں کشیدگی اور غیر یقینی صورتحال سے ہوا خصوصاً پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق خبریں اثر انداز ہونا شروع ہو گئیں اور سٹاک مارکیٹ مندے کا شکار ہوگئی ،

رہی سہی کسر عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی طرف سے پاکستان کی ریٹنگ کو کم کرنے اور پاکستان کے یورو بانڈز پر انٹرسٹ ریٹ میں غیر معمولی اضافے نے پوری کردی اورپھر کاروبار کے اختتام پر سٹاک مارکیٹ انڈیکس 978 پوائنٹ کم ہو کر 40389پر آ گیا۔ دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں انٹربینک ٹریڈنگ کھلتے ہی اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور ایک موقع پر 10روپے کے اضافہ سے 225.20 روپے کا ہو گیامگراوپن مارکیٹ میں 225.50روپے پر آخر تک ٹریڈ ہوتا رہا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے سونے کی قیمت 2800روپے فی تولہ اضافہ سے ایک لاکھ 45ہزار 200روپے ہو گئی معاشی صورتحال کی وجہ سے ایک اور تشویش ناک خبر بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے دی کہ پاکستان کا آؤٹ لک مستحکم سے منفی کردیاگیا ہے اور فچ نے بھی اپنی رپورٹ میں بڑھتے سیاسی عدم استحکام، کمزور حکومتی اتحاد اور جلد الیکشن کو آؤٹ لک بدلنے کی بنیادی وجوہات قرار دیااور کہاکہ منفی ریٹنگ پاکستان کی سال 2022ء کے آغاز سے بگڑتی لیکوڈٹی اور بیرونی فنڈنگ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد اور جون 2023ء کے بعد فنڈنگ کے حصول پر خدشات ہیں جب کہ زرمبادلہ ذخائر پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث دباؤ ہے۔ فچ کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالررہا اور آئندہ مالی سال یہ خسارہ 10 ارب ڈالر رہنے کے اندازے ہیں۔فچ نے پاکستان میں مہنگائی کے حوالے سے بھی بری خبر سنائی ہے کہ مہنگے ایندھن کے سبب مہنگائی کی شرح بلند رہے گی۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ گرنے کی وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی کو سٹے بازی، قیاس آرائیاں اور غیریقینی کی کیفیت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک آئی ایم ایف رجیم کے اندر ہے، اس لیے وہ محدود مداخلت کرسکتا ہے۔جتنے مشکل فیصلے کرنا پڑیں ہم کریں گے، مشکل فیصلے نہ کرسکا تو وزارت چھوڑ دوں گا، ہماری حکومت رہی تو ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں۔

ملک کی بدترین معاشی صورتحال کو عالمی ادارے فچ اور وزیرخزانہ پاکستان مفتاح اسماعیل نے سیاسی عدم استحکام سے جوڑا ہے اور بلاشبہ اس کے بعد قطعی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کی بجائے کسی اور وجہ سے منسلک کیا جائے کیونکہ موجودہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی تنائو ختم ہونے کی دور یا نزدیک کوئی امید نظر نہیں آتی اسی لیے پاکستان میں کاروباری حلقے بھی اس صورتحال پر فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سیاسی بحران کی وجہ سے ہی ایک بڑی ٹیکنالوجی کمپنی نے سٹاک مارکیٹ میں داخلے کے منصوبے کو فی الحال مؤخر کر دیا ہے اور بلاشبہ مرکز میں تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سے معیشت کے متعلق ایسی بری خبریں تسلسل سے مل رہی ہیں اور اسی سیاسی بے یقینی کی وجہ سے سیاسی درجہِ حرارت میں شدت آئی ہے مگر اس تناؤ کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں

یوں سیاسی عدم استحکام نے ایک جانب سٹاک مارکیٹوں کو شدید متاثر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر بھی اس سے متاثر نظر آتی ہے تاہم اس ساری صورتحال کا سب سے منفی اثر ملک کی معاشی فیصلہ سازی کے شعبے پر پڑ رہا ہے جو اس وقت گو مگو کا شکار ہے، اسی لیے سرمایہ کار اپنے سرمائے کے معاملے پر کسی قسم کا رسک لینے کو تیارنہیں اور وجہ بظاہر یہی ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومت کی توجہ بیک وقت کئی اہم معاملات پر تقسیم ہوچکی ہے اور ان معاملات میں سب سے زیادہ معاشی صورتحال ہے اور لگتا یہی ہے کہ سیاسی عدم استحکام آنے تک معاشی حالات خدانخواستہ ابتری کا شکار رہیں گے

کیونکہ جہاں سیاسی عدم استحکام ہو، حکومتیں گرانا اور بنانا معمول بن جائے اور سڑکوں پر کاروبار کی بجائے ہا ہا کار مچی ہو وہاں کون سا تاجر سرمایہ کاری کرے گا اور کونسا غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرکے رسک لینا چاہے گا۔ ملکی سیاسی صورتحال پر بات کی جائے تو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اتحادی جماعتوں نے عمران خان کا فوری انتخابات کرانے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی ،پنجاب میں وزارت اعلیٰ بچانے کی بھی کوشش کریں گے،

اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن نہیں ہیں۔ حزب اقتدار نے یہ فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے اِس مستقل مطالبے کے جواب میں کیا ہے جس میں عمران خان مسلسل نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کررہے ہیں۔

دوسری طرف نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ایک بار پھر ویسی ہی مشق دھرائے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جو مرکز اور پنجاب میں حکومت گرانے کے لیے کی گئی تھی، پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی مسلم لیگ قاف مستقل الزامات لگارہی ہیں کہ اُن کے اراکین صوبائی اسمبلی کو قبل از انتخاب خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ نمبر گیم بدلی جاسکے،

کل بائیس جولائی کو پنجاب کے قائد ایوان کا انتخاب ہونے جارہا ہے اور ایک بار پھر ویسا ہی اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت والا معاملہ ظاہر کیا جارہا ہے، چونکہ اب سپریم کورٹ آرٹیکل چھ کی واضح تشریح کرچکی ہے اور اسی کے اطلاق کی وجہ سے تحریک انصاف کے پچیس اراکین صوبائی اسمبلی منحرف ہوئے اور اتوار کے روز ان کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ اگریہ اطلاعات واقعتاً حقیقت ثابت ہوتی ہیں تو پس سمجھ لیا جائے کہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے ملکی معیشت مزید بگاڑ کا شکار ہوجائے گی جو یقیناً ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button