ColumnImtiaz Aasi

اضافی نوٹ پڑھ تو لیتے .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ملک میںvisionariesسیاست دان وقت گذرنے کے ساتھ ناپید ہوتے جا رہے ہیںاگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ سیاست دانوں کا ایک ایسا گروہ سیاسی عمل میں وارد ہو چکا ہے جن کا مقصد لوٹ مار اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے سوا کچھ نہیں۔سیاست دان تو ایسے ہونے چاہئیں جوملکی ترقی کے لیے نئے آئیڈیازاورعوام کے گوناگوں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں ہمیں کسی ایک سیاست دان سے گلہ نہیں بلکہ اس معاملے میں سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہیں۔سیاست دانوں کو ملکی ترقی کا خیال ہوتا تو ملک کی جو حالت ہے وہ کبھی نہ ہوتی۔تاسف ہے ایک اٹیمی قوت والا ملک دیوالیہ ہونے کو ہے اور سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ سیاست دانوں کی حالت یہ ہے وہ بغیر سوچھے سمجھے ایک دوسرے کے خلاف بیانات داغنے میں سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کا اضافی نوٹ پڑھ تو لیتے آرٹیکل 6 کا شورغوغا نہ ہوتا،یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے بس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جونہی کوئی بات سامنے آئی بلاسوچے سمجھے بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے معزز حج مظہر عالم خیل جو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈہو چکے ہیں، نے اپنے اضافی نوٹ میں جس رائے کا اظہار کیا ہے اسے سمجھ تو لیتے بغیر سوچھے سمجھے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی کارروائی کا شورغوغا ہے ۔ حکومت نے تو اس معاملے کو کابینہ اجلاس میں رکھ کر مزید غوروغوض کرنے کی خاطر کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جج صاحب نے اپنے اضافی نوٹ میں آئین کی خلاف ورزی کا ذکر کیا ہے نہ کہ آئین کی subversionکا لکھا ہے۔یہ تو جج صاحب کی ذاتی رائے ہے نہ کہ آرڈر آف دی کورٹ ہے۔ قابل ترین سیاست دان اسے سپریم کورٹ کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی تو انتظامیہ ہر روز کرتی ہے ۔ہاں اگر کوئی حکومت آئین کو معطل کرتی ہے یا subversion کی مرتکب ہوتی ہے تو اسے آئین شکنی قرار دیا جا سکتا ہے۔جیسا کہ ماضی میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف آئین کو Held in Abyance رکھ کر آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ۔آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت تو کسی کے خلاف کارروائی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کسی نے آئین کو توڑا ہو۔بدقسمتی سے سیاست دان کسی ایشو پر بات تو کرتے نہیں بغیر سوچھے سمجھے اخبارات میں بیانات دے کر اپنا دل پشوری کرتے ہیں۔

عہد حاضر میں سیاست دانوں نے اخلاقی اقدار کو یکسر بھلا دیا ہے ایک دوسرے کے غلط ملط نام رکھ کر بھلا کیا حاصل ہوگا۔جہاں تک قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار کی بات ہے، آئین نے وزیراعظم کو اختیار دیاہے کہ وہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس صدر مملکت کو بھیج سکتا ہے اس میں آئین شکنی کا کون سا پہلو نکلتا ہے مگر سیاست دانوں نے کہرام مچا رکھا ہے ۔ عام فہم سی بات ہے کہ آئین کی روح سے متعلق اگر چھوٹی موٹی غلطی ہوجائے تو اسے آئین شکنی نہیں قرا ر دیا جا سکتا ۔جمہوریت کے علمبرداروں سے ہمارا سوال ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک جن جن حکمرانوں نے آئین شکنی کی ان کے خلاف سیاست دانوں نے کیا کارروائی کی اور آئین معطل کرنے والوں کے خلاف غداری کے کتنے مقدمات بنائے جو اب صرف ایک معزز جج کی ذاتی رائے کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مخالفین کو تختہ مشق بنانے کی ناکام کوشش جاری ہے۔

ملک میں جب مارشل لاء کانفاذ ہوا وہ سب سیاست دانوں کا کیا دھرا تھا۔ شہید جنرل محمد ضیاء الحق کو کس نے مارشل لاء کی دعوت دی ۔یہ سیاست دان ہی تھے جنہوں نے خطوط لکھ کر بھٹو حکومت ختم کرکے مارشل لاء لگانے کی درخواست کی تھی۔سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے اور بھی بہت سے موضوعات ہوتے ہیں۔سیاست دانوں کو کسی معاملے میں اس حد تک نہیں جانا چاہیے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔جو لوگ قانون کی الف ب سے واقف نہیںوہ آئین کے آرٹیکل 6 بارے اخبارات میں شہ سرخیوں سے بیانات شائع کراکر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔سیاست دان بیانات دینے سے قبل آئین شکنی اور آئین کی خلاف ورزی کا مفہوم معلوم کر لیتے تو انہیں بلامقصد بیانات کی ضرورت نہ ہوتی۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹھیک کہا ہے کہ اگر آئین شکنی کی بات چل پڑی تو رسیاں کم پڑ سکتی ہیں۔یہاں تو آئین شکنی کرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے، کس کس کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کریں گئے۔

جب بات بعض ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ جائے تو ایسی ہی صورت حال پید ا ہو جاتی ہے۔جمہوریت کے دعویٰ داروں نے ملکی ترقی کے لیے کیا خدمات انجام دیں ۔جمہوری وزیراعظم کاسہ گدائی لیے ملکوں ملکوں پھرتے ہیں ۔مقام افسوس ہے کہ دنیا ہمیں اٹیمی طاقت تسلیم کرتی ہے تو دوسری طرف ہم خیرات لینے کے لیے دوسرے ملکوںکے دورے کرتے ہیں۔ جب تک ہمیں راست باز قیادت نصیب نہیں ہوتی ہمارا ملک معاشی طور پر کبھی خوشحال نہیں ہو سکتا۔کھربوں کے قرضے معاف کرانے اور منی لانڈرنگ کرانے والوں سے دولت کی واپسی ہو جاتی تو ملک کی معاشی حالت سدھر سکتی تھی۔سیاست دانوں نے غریب عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات کی حدیں عبور کرنے والوںکا اوڑھنا بچھونا اقتدار کی کرسی ہے۔ملک اور عوام کی خدمت اقتدار کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔یہ ضروری نہیں کوئی اقتدار میں آکر ہی عوام کے مسائل حل کر سکتا ہے۔سیاست دان ایوان میںخلوص نیت سے ملک اور قوم کے مسائل کی بات کریں تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں،زیادہ سے زیادہ وقت ملکی ترقی اور عوام کے مسائل کو حل کرنے پر صرف کریںنہ کہ ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیں۔ سیاست دانوںکوچاہیے وہ ذاتی مفادات کے خول سے نکل کر ملک و قوم کی ترقی کے لیے یک جاں ہوکر جدوجہد کریں تو کوئی وجہ نہیں ہمارا ملک ترقی نہ کر سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button