ColumnFayyaz Malik

حکم حاکم مَرگِ مفاجات ۔۔ فیاض ملک

فیاض ملک

انقلاب فرانس کو دیکھیں تو کہ فرانس کی آخری ملکہ ’’میری انطونیا‘‘یا’’میری انٹوانیٹ‘‘کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پرتعیش زندگی کی وجہ سے عوامی مسائل سے بالکل بے خبر تھیں۔ ایک بار کسان، بادشاہ لوئی کے محل کے سامنے مظاہرہ کر رہے تھے، انہوں نے محافظوں سے پوچھا کہ لوگ کس وجہ سے احتجاج کررہے ہیں۔ محافظوں نے ملکہ کو بتایا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں،اس پر ملکہ نے جواب دیا کہ اگر ان کے پاس روٹی نہیں توانہیں کیک کھانے دو،

شاید ہمارے سیاستدان بھی اس ملکہ کے اس بیان سے خاصے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ نون کے رہنماءوفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے چائے کی ایک ایک پیالی کم پینی چاہیے،کیوں کہ ہم چائے درآمد کرتے ہیں جس پر بہت سا زر مبادلہ خرچ ہوجاتا ہے اور یہ ہم قرض کے پیسوں سے در آمد کرتے ہیں جبکہ آج ملک جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لیے قوم کو چائے کی ایک ایک پیالی کم پینی چاہیے ۔ احسن اقبال کی چائے کم پینے کے مشورے سے پہلے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی مشورہ دے چکے ہیں کہ اگر چار بھائی مل کر ایک روٹی کھائیں تو بچت ہوسکتی ہے جبکہ خواجہ آصف نے بچت کےلیے ایک سالن پکانے کا مشورہ دیا ہے،

عوام کو دئیے جانےوالے کفایت شعاری کے مشوروں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ گزشتہ برس پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے عوام کو مشورہ دیا تھا کہ عوام چائے میں کم چینی ڈالیں اور روٹی بھی کم کھائیں،سابق وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پٹرول کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں،وزیراطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسف زئی نے عوام کو مشورہ دیا تھا کہ ٹماٹر مہنگے ہیں تو نہ کھائیں اس کی جگہ دہی استعمال کریں، عوام ٹماٹر سے جان چھڑالیں قیمتیں خود ہی معمول پر آجائیں گی، سیاستدانوں کی جانب سے اس طرح کے کئی بیانات منظر عام پر آچکے ہیں۔

بہر حال حکمِ حاکم مَرگِ مفاجات ۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ منہ میں سونے کا چمچ لےکر پیدا ہونے اور ملازموں کی فوج میں رہنے والے سیاستدانوں کو یہ بات کیسے معلوم ہوسکتی ہے کہ چولہے کیسے جلتے ہیں، روٹی کیسے پکتی ہے اور سالن کیسے بنتے ہیں۔ عام لوگوں کےلیے تو گھر کا چولہا جلانا مشکل ہے اور یہ کہتے ہیں چائے کم کرو، سالن کم کرو، ایک سالن کم کرنا تو در کنار ٹھہر اب توعام لوگ سالن پکانے سے بھی قاصر ہیں بلکہ اکثریت تو ایسے لوگوں کی بھی جو چائے کے ساتھ روٹی کھا لیتے ہیں۔پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں، حکومت مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لیے سوائے زبانی جمع خرچ یا بیانات دینے کے عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی،ہر دور میں عوام پر اسی طرح ظلم و ستم ہوتا ہے بس نعرے بدل جاتے ہیں اور نعرے لگانے والے افراد تبدیل ہو جاتے ہیں جب حکومت پٹرولیم مصنوعات سستی کرتی ہے تو ان کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے جب پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو ہر چیز کو مہنگائی کے پر لگ جاتے ہیں،

دکاندار پٹرول مہنگا ہونے کی دہائی دینا شروع کر دیتا ہے اور بسوں کے کرایوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رکشا ٹیکسی کے کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کے قریباً تمام ملکوں میں قومی و مذہبی تہواروں و دیگر زمینی و آسمانی آفات کے موقع پر تاجر اپنے لوگوں کو خصوصی ریلیف دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان موقعوں پر بھی عوام کو ریلیف دینا تو در کنار الٹا مصنوعی مہنگائی کر کے انتہائی دیدہ دلیری سے من مانے دام وصول کئے جاتے ہیں۔کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کمزور مالیاتی اداروں، بے جا حکومتی اخراجات اور کرپشن کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ان حالات میں عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول دن بدن دشوار ہوتا جا رہا ہے،مہنگائی کا بے قابو جن غریبوں کونگل رہا ہے، آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بھوک و افلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے عالمی سطح پر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

اس خوفناک صورتحال نے پاکستان کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جہاں گزشتہ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاءکی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں،تعلیم ، ادویات ،کرائے ، روز مرہ کی اشیاء غریب کی دسترس سے بالا تر ہوتی جارہی ہیں، نہ صحت ، نہ تعلیم ، نہ رہائش آخر غریب کےلیے ہے کیا؟مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں، ان چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاءکی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے، ہماراملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔

غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھئے ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔اس ناگفتہ صورتحال میں مزید پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بہ دن ختم ہوتا جا رہا ہے،اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی مافیا بہت طاقتور ہے۔

وہ سرکار کو خاطر میں لائے بغیر بلا خوف و خطر کبھی تبدیلی اور کبھی کرونا کی آڑ میں عوام کا خون پی رہاہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاءکو مہنگا کردیا جاتا ہے، اجارہ داری کے منصوبوں کے تحت کمیشن لےکر ڈیل کی جاتی ہے اور آخر میں تمام بوجھ صارف کو ہی اٹھانا پڑتا ہے یہی وجہ مہنگائی اور غربت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بے ضابطگیوں کو غور طلب فیصلوں سے حل کیا جائے۔ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں ایک جانب کرونا وائرس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے تو دوسری طرف مافیا نے اشیاءخورونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاءکو نا جائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر د یا ہے جس سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہو ئی ہے تو اور ملک میں آٹے ،چینی ،گھی ،تیل ،سبزیاں،گوشت اور دیگر اشیاءضروریہ کی قیمتو ں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے جبکہ اکثر عوام کرونا وائرس کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کےلیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اورکبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کوبڑھادیا جاتا ہے تو کبھی بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔یہاں یہ امر حکومت کی توجہ کا طلب گار ہے کہ وہ ایسے ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کر کے پہلے ہی کٹھن اور مشکل ترین زندگی گزارنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے ان کی سزائوں کے قوانین مزید سخت کر کے ان کا موثر نفاذ کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button