Editorial

بجلی کی قیمت میں اضافے کی قیاس آرائیاں

وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی وفاقی کابینہ نے منظوری نہیں دی یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ، وفاقی کابینہ نے نیپرا کی 7روپے 91 پیسے بجلی مہنگی کرنے کی سفارش کی تھی، تربیلا ڈیم میں پانی کی وافر آمد سے بجلی کی پیدوار میں اڑھائی ہزار میگاواٹ اضافہ ہوا ہے ،عیدالاضحی اور بعد میں لوڈ شیڈنگ میں 50فیصد کمی آئے گی ، افغانستان سے کوئلہ درآمدجاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کے بعض حلقوں کی جانب سے دو روز قبل دعویٰ کیاگیا تھا کہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے ایک اور شرط پوری کردی ہے اور بجلی کا بنیادی ٹیرف 7روپے 91 پیسے فی یونٹ بڑھانے کی مرحلہ وار منظوری دی ہے۔
دعویٰ کیاگیا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے وزارت توانائی کی سمری پر منظوری دی اور وفاقی کابینہ میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کی سمری ٹیک اپ نہیں ہوسکی تھی یوں بجلی کا بنیادی ٹیرف مرحلہ وار بڑھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے لوڈ شیڈنگ کے متعلق خوشخبری سنائی کہ بجلی کے شارٹ فال میں آنے والے دنوں میں پچاس فیصد کمی آئے گی اور عیدالاضحی کے دنوں میں پاکستان کے عوام کو لوڈ شیڈنگ میں واضح کمی محسوس ہوگی ۔ کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی ری فلنگ کا عمل جاری ہے ،
اس میں جلدبازی ممکن نہیں لیکن امید ہے کہ عیدالاضحی سے قبل مزید 1100میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائے گی۔پاور پلانٹس کے لیے افغانستان سے کوئلے کی درآمد پر بھی مثبت اور خوش آئند پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور افغانستان کی کمپنیوں کے مابین معاہدہ ہوچکا ہے اور عید کے فوری بعد پاکستانی وفد افغانستان کا دورہ کرکے افغان انتظامیہ سے کوئلہ کی بغیر تعطل فراہمی کے لیے بات کرے گا اور امید کی جاسکتی ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اِس معاملے پر مثبت جواب اور تعاون ملے گا کیونکہ دونوں ملکوں کی کمپنیوں کے لیے دونوں حکومتیں سہولت کار کا کام کررہی ہیں، یوں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا ۔ بلاناغہ پاکستانی قوم کو بجلی اور معاشی بحران کے حوالے سے خبریں سننا پڑتی ہیں،
موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے درپیش چیلنجز میں یہی بڑے اور فوری حل طلب ہیں اورخوش قسمتی سے ان دونوں مسائل سے بروقت نبرد آزما ہوا جارہا ہے اسی لیے حکومتی ٹیم کے اراکین آنے والے دنوں کو’’ اچھے دن‘‘قرار دے رہے ہیں، ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ رابطے میں ہے کیونکہ فوری نوعیت کے ضروری معاملات چلانے کے لیے ایک پائی نہیں اور ہر طرف معاشی بحران ہے تو دوسری طرف بجلی کی غیر معمولی لوڈ شیڈنگ مسائل در مسائل کو جنم دے رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ صورتحال میں ایک طرف وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تو دوسری طرف وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیراپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دونوں کے بقول آنے والے دن عوام کے لیے خوشخبریوں کے دن ہوں گے،
جہاں تک بجلی کی قیمت میں اضافے کی قیاس آرائیوں کی بات ہے تو موجودہ سیاسی صورتحال اور سوشل میڈیا کے دور میں قیاس آرائیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ حقیقت نیچے دب جاتی ہے، چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں پٹرول پمپس پر شہریوں کی قطاریں لگ گئیں اور لوگ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ پٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے، اسی لیے جگہ جگہ بدنظمی بھی دیکھنے میں آئی اور افراتفری کا ماحول بھی، یہ افواہ ایسے منظم طریقے سے پھیلائی گئی کہ وزارتوں کو سامنے آکر تردید کرنا پڑی۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں صرف اور سیاسی مخالفت برائے مخالفت ہے تاکہ لوگ بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہوکر حکمرانوں سے نالاں رہیں۔ موجودہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کیا اور اتحادی جماعتیں متفق ہیں کہ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے سخت ترین فیصلے کرنا حالات کی ضرورت ہیں وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی،
یہ جانتے ہوئے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جارہی ہیں، بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان عام پاکستانیوں کو بہالے جارہا ہے، اگرچہ وفاقی حکومت بالخصوص صوبائی حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، سو یونٹ تک مفت بجلی ، یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے خورونوش کی کم قیمت پر فراہمی بالخصوص آٹا وغیرہ لیکن اس کے باوجود عوام مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں اور اس مشکل صورتحال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ ہم ارباب اختیار کی توجہ خصوصاً اس معاملے کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے نتیجے میں ملکی انڈسٹری بری طرح مسائل کا شکار ہے دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مصنوعات کی نقل و حمل کے اخراجات بھی غیر معمولی طور پر بڑھ چکے ہیں اور صنعت کار بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
یقیناً جس نیک نیتی سے بجلی بحران کے خاتمے کے لیے وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اور وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیرکوشاں ہیں ، توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں قوم کو بجلی بحران سے چھٹکارا ملے گا لیکن اس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوگی اس کی ابھی سے ارباب اختیار کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ مہنگی بجلی اور گیس سے صنعتیں کیسے چلیں گی اور ایک عام صارف چوبیسوں گھنٹے دستیاب بجلی کا بل کیسے اداکرے گا کیونکہ بجلی بلوں کی ادائیگی اب عام صارف کے لیے ناممکن ہوتی جارہی ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کی کوششوں کے ساتھ سستی بجلی کی فراہمی پر بھی کام کرنا چاہیے تاکہ عام سفید پوش صارف پر بجلی کے بل بجلی بن کر نہ گریں، سستی بجلی کے لیے سولر والے منصوبے کو جلد ازجلد عوام کے لیے لانا چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف حاصل ہو ، ہم توقع کرتے ہیں کہ سولر منصوبے کے ذریعے حکومت اپنی اور عوامی مشکلات میں جلد کمی لائے گی کیونکہ یہی درمیانی راہ ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button