ColumnRoshan Lal

تم کہاں کے سچے ہو! .. روشن لعل

روشن لعل
راجہ ولایت ہمارے ایک سینئر دوست ہیں جو یحییٰ خان کے مارشل لا کے دوران پہلے طلبہ سیاست میں متحرک ہوئے اور پھر بائیں بازو کی سیاست کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیا ۔پکا مارکسسٹ ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجو اب وہ سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی بجائے سیکولر ازم اور سوشل ڈیموکریسی کے نفاذ کو زیادہ بہتر اور زیادہ قابل عمل سمجھتے ہیں۔ زندگی کے معاملات سے متعلق راجہ صاحب کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر دوست، دور حاضر کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل پر بحث کرنے اور ان کی رائے جاننے کے لیے ان کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ راقم بھی حالات حاضرہ سے متعلق ایک رمز آمیز سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ان کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔ راقم کا ’’رمز آمیز‘‘ سوال یہ تھا کہ ان باتوںسے کیا اخذ کیا جائے ، اگر کوئی ’’خاص ڈاکٹر‘‘ کسی ’’خاص ہسپتال‘‘ کے باہر کھڑا ہو کر اس کی ’’ خاص انتظامیہ‘‘ کو للکارتے ہوئے یہ کہے کہ تم نے انسانیت کی خدمت کے نام پر مجھے بڑی راز داری کے ساتھ ’’ خاص آپریشن ‘‘ کرنے کے لیے اپنے ’’ خاص ہسپتال‘‘ میں بھرتی کیا تھا، اب تم نے ’’ خاص آپریشن ‘‘ کرنے کا کام چھوڑ کر ان مریضوں کو ہی ہسپتال کی انتظامیہ میں شامل کر لیا ہے جن کا مجھ سے علاج کرواتے رہے،، تمہارے کہنے پر ہی سہی مگر میںاپنی مرضی سے ’خاص آپریشن‘‘ کرنے کے لیے تمہارے ٹیم کا حصہ بنا تھا ، گو کہ تم نے ’’ خاص مریضوں‘‘ کے ’’ خاص آپریشن ‘‘ کرنے کا کام چھوڑ دیا ہے مگر جو کام میں نے اپنی مرضی سے شروع کیا تھا وہ میں تمہارے کہنے پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ اپنی مرضی سے آئندہ بھی جاری رکھوں گا۔سوال میں چھپی رمز کو سمجھتے ہوئے راجہ صاحب مسکرائے اور جواب دیا کہ ہر شعبے کی طرح میڈیکل کے شعبے میں کام کرنے کے بھی کچھ قواعد و ضوابط اور کچھ اخلاقیات ہیں۔
ایک ’’ خاص ڈاکٹر‘‘ نے ایک ’’ خاص ہسپتال ‘‘ میں ہونے والے ’’ خاص آپریشنوں ‘‘ کا جس ’’خاص انداز‘‘ میں ذکر کیا ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ خاص ہسپتال ‘‘ میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ میڈیکل کے طے شدہ قواعد و ضوابط اور اخلاقیات سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس ’’ خاص ہسپتال‘‘ میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ ایک نمبر نہیں بلکہ دو نمبر طریقے سے کیا جارہا تھااور جو ’’ خاص ڈاکٹر‘‘ انسانیت کی خدمت کے نام پر کام کرنے کا دعویدار ہے وہ بھی اپنا کام دو نمبر طریقے سے ہی کر رہا تھا۔راجہ صاحب کے جواب سے جب راقم کو یہ تسلی ہو گئی کہ وہ میرے سوال میں چھپی رمزوں کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں تو ان کے سامنے یہ سوال بھی رکھ دیا کہ جب ’’ خاص آپریشن‘‘ کرنے کے لیے یہاں ایک ہی’’ خاص ہسپتال‘‘ہے تو ’’ خاص ڈاکٹر ‘‘ نے یہ کیوں کہہ دیا کہ وہ اپنی مرضی سے ’’ خاص آپریشن‘‘ کرنے کا کام جاری رکھے گا۔
راجہ صاحب نے کچھ توقف کے بعد مسکراتے ہوئے یہ جواب دیا کہ دو نمبر کام کرنے والے کبھی بھی فری ایجنٹ بن کر کام نہیں کر سکتے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’خاص ڈاکٹر‘‘ کی باتوں کو اس کی بڑ سمجھ لیا جائے۔ ’’ خاص ڈاکٹر ‘‘ نے جن ’’ خاص آپریشنوں‘‘ کا ذکر کیا ہے وہ صرف ’’ خاص ہسپتال‘‘ میں ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات عام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ پہلے سے موجود ’’ خاص ہسپتال‘‘ کی انتظامیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ یا تو یہاں کوئی نیا ’’خاص ہسپتال ‘‘ زیر تعمیر ہے اور یا پھر کم ازکم اس کا ڈیزائن تیار ہو چکا ہے ، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو وہ ’’ خاص ڈاکٹر‘‘ کبھی یہ نہ کہتا کہ وہ اپنا کام جاری رکھے گا کیونکہ جو ’’خاص آپریشن ‘‘ وہ کرنا جانتا ہے انہیں ’’ خاص ہسپتالوں‘‘ کے علاوہ کہیں اور کیا ہی نہیں جاسکتا۔ راجہ صاحب کا یہ جواب سن کر ان کے سامنے کسی حد تک ایک احمقانہ سوال رکھ دیا گیا، تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ’’ خاص ڈاکٹر‘‘ جو کچھ بھی کر رہاہے ، اس کے پیچھے کسی نہ کسی کہ شہہ ہے۔ اس سوال پر ان کا جواب تھا کہ گرے ہوئے بیلوں کو ٹھڈے مار کر اپنی مردانگی ثابت کرنے والا کوئی انسان جب اچانک کسی خونخوار جانور کی کچھار کے سامنے کھڑا ہو کر بڑھکیں لگانا شروع کردے تو کیوں نہ سمجھا جائے کہ وہ ایسا کسی کی شہہ پر کر رہا ہے ۔
ایک احمقانہ سوال کا راجہ صاحب سے غور طلب جواب سن کر ایک پرانا وقعہ یاد آگیا۔ اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جب پرویز مشرف کو انکار کیا تومیڈیا پر ان کے انکار کی دھوم مچا تے ہوئے انہیں یکایک زیرو سے ہیرو اور ہر امید کا مرکز بنا دیا گیا۔ راقم بھی افتخار چودھری کے اس انکار سے بہت متاثر ہوا تھامگر اس وقت بہت حیرانی ہوئی جب ایک سیاسی استاد اور پاکستان کے بہت بڑے وکیل کو اس طرح کے اثر سے ماورا پایا۔ جب ان سے افتخار چودھری کے اثر اور سحر سے ماورا ہونے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جس کے سحر میں آپ مبتلا ہیں اس نے جب لا کالج میں داخلہ لیا اس وقت میں پاکستان بار کونسل کا ممبر بن چکا تھا، افتخار چودھری نے وکالت پاس کرنے سے چیف جسٹس بننے تک کا سفر میری آنکھوں کے سامنے طے کیا، اس کے اس سفر کے دوران میں نے اسے اپنا کیرئیر بہتر بنانے کے لیے تو بہت کچھ کرتے دیکھا مگر انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی جیسی تحریکوں کے دوران یہ مجھے اگلی کیا کبھی پچھلی سے پچھلی صفوں میں بھی نظر نہیں آیا تھا۔ اس طرح کا پس منظر رکھنے والے انسان نے مشرف کو انکار کر کے یکایک بہت بڑا کام کیا ہے ۔ اس کا کام یقیناً بہت بڑا ہے مگر میرے سامنے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکایک کیے جانے والے بڑے کاموں کے پیچھے اکثر کسی نہ کسی کی شہہ موجود ہوتی ہے۔
راجہ صاحب سے کیے گئے سوالوں کے جواب سننے اور مذکورہ واقعہ یاد آنے کے بعد ذہن میں موجود کئی الجھنیں سلجھ گئیں ۔ ایسا ہونے پر راجہ صاحب سے آخری سوال کی اجازت طلب کر تے ہوئے یہ پوچھا کہ ’’خاص ڈاکٹر ‘‘ کی اس بات کو کیا سمجھا جائے جس میں اس نے کہا ہے کہ اس کے سینے میں جو راز موجود ہیںانہیں اس نے ایک ایسی ویڈیو میں محفوظ کر لیا ہے جو اس کی اچانک موت کی صورت میں اچانک منظر عام پر آجائے گی ۔ راجہ ولایت کا جواب تھا کہ’’خاص ڈاکٹر‘‘ نے ’’ خاص ہسپتال ‘‘ کی ’’ خاص انتظامیہ ‘‘ کو بلیک میل کرنے کے لیے اس کے مبینہ دہرے کردار کی نشاندہی توپہلے ہی کردی تھی مگر انتظامیہ کی ملی بھگت سے میڈیکل اخلاقیات کے منافی خود جو کام کیے انہیںویڈیو میں ریکارڈ کر کے رکھ دیا۔ ایسے ’’ خاص ڈاکٹر‘‘ کے لیے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ تم کہاں کے سچے ہو‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button