ColumnRoshan Lal

روسی تیل ، غبارہ اور ہوا .. روشن لعل

روشن لعل

اس دنیا میں مکمل ہوش و حواس رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگاجو یہ نہ جانتا ہو کہ غبارے میں ہوا بھرنے سے کیا ہوتا ہے اور ہوا نکل جانے کے بعد غبارے کی حالت کیا ہوجاتی ہے۔ ہوا بھرنے سے پہلے غبارے کی عمر دنوں، ہفتوں یا پھرمہینوں تک لمبی بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک مرتبہ اگر اس میں ہوا بھر دی جائے تو پھر اس کی عمر چند سیکنڈو ں سے چند گھنٹوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ غبارہ جو پہلے ربڑ کا چیتھڑا سا نظر آتا ہے وہ ہوا داخل ہونے کے بعد اپنے اصل حجم سے بہت بڑی اور انتہائی دلکش شے بن جاتا ہے۔ ربڑ کے چیتھڑے پرقبل ازیں جو نقش و نگار محض نقطے سے دکھائی دیتے ہیں وہ ہوا بھرنے کے بعد خوبصورت تصویریں نظر آنے لگتے ہیں۔ضرورت سے زیادہ ہوا بھرنے کی صورت میں غبارہ پھٹنے کی وجہ سے یہ خوبصورت تصویریں بعض اوقات ایک جھلک کی طرح نظر آنے کے بعد یکا یک غائب ہو جاتی ہیں۔ ہوا بھرنے کے دوران اگر ایسا نہ ہو تو پھر بھی کچھ دیر بعدیاتو غبارہ کسی نوکیلی شے سے ٹکرا کر پھٹ جاتا ہے یاپھر قدرتی طور پر ہوا نکل جانے کی وجہ سے انتہائی بھدی سی شکل اختیار کر لیتاہے۔ کسی بھی غبارے میں سے ہوا چاہے جیسے بھی خارج ہو، اس کی آ خری منزل کوڑے دان ہی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غبارہ اپنے طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا، اس کی تمام تر کشش اور دلکشی کا انحصار اس میں بھری ہوئی ہوا پر ہوتا ہے ۔

جس طرح ہوا پر منحصر غباروں کی دلکشی اور خوبصورتی کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے اسی طرح کسی بے بنیاد بیانیے کو چاہے جس قدر بھی ہوشربا بنا کر کیوں نہ پیش کیا گیاہو اس کامحدود مدت کے بعد اپنی موت آپ مرنا یقینی ہوتاہے۔ اس مماثلت کی وجہ سے ہی ہر بے بنیاد بیانیے کے اپنی موت آپ مرنے پر کہا جاتا ہے کہ اس کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ پاکستان میں ان دنوں جن بیانیوں کے غباروں سے تازہ تازہ ہوا خارج ہوئی ہے ان میں سے ایک تو امریکی سازش کا بیانیہ اور دوسرا اس سے جڑا ہوا روس سے سستا تیل لینے کے بے بنیاد معاہدے کا بیانیہ ہے۔ یہ دونوں بیانیے عمران خان نے اپنی قریب المرگ حکومت کو بچانے کے لیے جاری کیے تھے۔ ان بیانیوں سے عمران خان کی حکومت تو نہ بچ سکی مگر حکومت جانے کے باوجود سابق وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے ا پنی چار سالہ حکومتی کارکردگی پرمٹی ڈالنے اور اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانےکے لیے ان بیانیوں کی تسبیح جاری رکھی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور کراچی میں تعینات روسی قونصل جنرل کے بیانات منظر عام پر آنے کے بعد امریکی سازش کے تحت عمران حکومت گرانے اور روس سے سستا تیل لینے جیسے بیانیے بری طرح پٹ چکے ہیں۔ عمران خان کے ان دونوں بیانیوں کو بری طرح پٹخ کر نیچے گرانے والے ڈی جی آئی ایس پی آر اور روسی قونصل جنرل ہیں۔ ایک پاکستانی ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار نے امریکی سازش اور روسی قونصل جنرل نے سستے تیل کے بیانیے کے متعلق جو کچھ کہا عمران خان نے ابھی تک ان دونوں حضرات کے بیانات کو براہ راست چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کی مگر اس کے باوجود وہ اب بھی اپنے سیاسی حریفوں پر یہ الزامات لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہوں نے امریکی غلامی قبول کرکے ان کی حکومت ختم کرنے کی سازش کو کامیاب بنایا اور امریکی سازش میں شریک کار ہونے کی وجہ سے وہ روس سے سستا تیل لینے سے گریز اں ہیں۔ عمران خان نے اپنے خلاف مبینہ امریکی سازش کے غبارے میں اتنی زیادہ ہوا بھری کہ وہ بہت زیادہ پھولنے کے بعد بری طرح پھٹ چکا ہے۔ مبینہ سازش کے پھٹے ہوئے جس غبارے کا مقدر تاریخ کا کوڑے دان ہے ، عمران اب بھی اسے مسلسل منہ سے چپکائے اس میں ہوا بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کی ٹیم میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ پھٹے ہوئے غباروںمیں ہوا نہیں بھری جاسکتی مگر سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ اپنے لیڈر کے ’’مخصوص فہم‘‘ کی وجہ سے اپنا ادراک اس کے سامنے بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

عمران خان اور ان کے ساتھی امریکی سازش اور سستے روسی تیل کے بیانیے سے ہوا نکل جانے کے باوجود اس پھٹے ہوئے غبارے کو پھلانے کی چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں ،اب عام لوگ اس موضوع پر کچھ بھی سننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ اگر عمران خان نے اس موضوع کا ذکر پنجاب اسمبلی کے آئندہ ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران بھی جاری رکھا تو ماہرین کے مطابق انہیں اس کا کوئی فائدہ ہونے کی بجائے الٹا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگ اپنے غور فکر سے یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ نہ تو عمران خان کی حکومت امریکی سازش کی وجہ سے ختم ہوئی ، نہ روس نے ہمیں سستا تیل فراہم کرنے کی کوئی پیشکش کی تھی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوا تھا۔

مذکورہ ادراک کے باوجود بعض لوگ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ اگر بھارت ،روس سے سستا تیل لے سکتا ہے تو بھارت سے زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود ہم یہ کام کیوں نہیں کر سکتے۔ گوکہ ہمارے وزیر خزانہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر روس ہمیں سستا تیل دینے کے لیے تیار ہو تو ہم لینے سے گریز نہیں کریں گے مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں جتنی سادگی سے بیان کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ روس اور بھارت کے تجارتی تعلقات نہ صرف بہت پرانے ہیں بلکہ ان کا حجم بھی پاک روس تجارت سے بہت بڑا ہے۔ اس طرح کے تعلقات کے باوجود یوکرین کی جنگ سے قبل بھارت روس سے اپنی ضرورت کا صرف ایک فیصد تیل لیتا تھا۔ روس سے اتنی کم مقدار میں تیل لینے کی وجہ سعودی عرب اور عراق کی نسبت روس کی بندرگاہوں کا بھارت سے وہ بہت زیادہ فاصلہ ہے جس کی وجہ سے تیل بردار بحری جہازوںپر زیادہ کرایہ خرچ کرنا پڑتاہے۔

اب بھی اگرچہ بھارت نے ٹرانسپورٹیشن پر زیادہ خرچ کر کے سستا تیل خریدا ہے مگر روس ، یوکرین جنگ اور فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے تیل کی انشورنس پر بہت زیادہ پریمیم ادا کرنا پڑرہا ہے۔ زیادہ انشورنس پریمیم اور بحری جہازوں کا زیادہ کرایہ ادا کرنے کے بعد بھارت کو روس سے سستا تیل خریدنے پر شاید کوئی خاص فائدہ نہ ہوتا اگر تیل صاف کرنے کی اس اپنی ریفائنریاں نہ ہوتیں ۔ واضح رہے کہ بھارت میں روزانہ 4,443,000 بیرل تیل استعمال ہوتا ہے اور تیل صاف کرنے کی اس کی ریفائنریوں کی استعداد 4,900,000 بیرل یومیہ ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاںتیل کی روزانہ کھپت قریباً ساڑھے چار لاکھ بیرل اور ہماری ریفائنریوں کی تیل صاف کرنے کی استعداد صرف پچاس ہزار بیرل یومیہ ہے ۔ کسی پراپیگنڈے پر دھیان دینے سے پہلے مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں صرف یہ سوچ لینا چاہیے کہ یورپی یونین کو ناراض کر کے اگر ہم روس سے سستا تیل خرید بھی لیں تو بھارت کے مقابلے میں وہ ہمارے لیے کس حد تک سستا ثابت ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button