Column

ا بن الوقت ….. احمد نوید

احمد نوید

ہوا کے مخالف چلنا آسان نہیں ہوتا۔ اس راستے پر پتھر اور کانٹے آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ آپ کے کردار پر اُنگلیاں اُٹھتی ہیں لیکن جو اس منزل کا سچا مسافر ہو، جو روایتی اوردقیانوسی سوچوں سے ٹکر انا جانتا ہو، جومعاشرے کی کمزوریوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں،وہی انا لحق کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ وہ زمانے کا اُستاد، مفکر اور مدبر ہوتا ہے۔

صدا ایک ہی رُخ نہیں ناؤ چلتی
چلوتم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی

اس شعر کو سمجھنے میں بہت سے لوگ غلطی کرسکتے ہیں۔ مگر فہم اورادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہوا کے رُخ پر چلنے سے کوئی حسین بنتا ہے نہ منصور۔ اس راہ پر جو چلے گا،نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت اور نہ نگاہ اُس کی ہو گی۔سہل پسندی کی چاہت رکھنے والے وہ ابنِ آدم ہی نہیں جو آج تاریخ کے سینے پر سورج، چاند اور ستارے بن کر چمک رہے ہیں۔
زمانے کے دستور ہی بدل چکے ہیں، یعنی اب ہم اپنی سوچ، اپنے تصورات، خیالات دوسروں کے تابع لے آئیں، تو ہم کامیاب ہیں۔ہمارے آس پاس ایسے ابن الوقتوں کی کمی نہیں ہے۔مطلب پرستی،چاپلوسی کرنے والے ذہنوں کی کمی نہیں۔ درحقیقت اپنے بنائے راستوں پرچلنے کا جو تعین خود کرتے ہیں۔ اُن کی منزلیں دور ہوتی ہیں۔ اُن کی منزلیں کٹھن ہوتی ہیں۔ یہ راستے پُرخار ہوتے ہیں مگر یہ سرفروش اسی وادی پُر خارکے راہی بننا پسند کرتے ہیں۔

سرسید احمد خان، بھگت سنگھ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ ایسی ہی لازوال شخصیات تھیں، جنہوں نے ہواکے رُخ پر چلنے سے انکار کیا۔ سقراط کوزہر کا پیالہ پلانے والوں کا نام دُنیا نہیں جانتی مگر سقراط کا نام آج بھی زندہ ہے۔سائنس کے باپ گلیلیو نے جب اپنے نئے نظریات پیش کئے تو اُس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ ارسطو نے بھی زمانے کے نقش قدم پر چلنے سے بغاوت کی۔

مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ جو لو گ ہو اکے مخالف چلنے کو دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو مجھے بتائیں کہ مولانا روم اور شمس تبریز دیوانے نہیں تھے۔ کیا پاکستان کا قیام بھی ایک دیوانے کا خواب تھا۔ کیا شمع بن کر زمانے کی تاریکی کو بدلنا دیوانگی ہے۔ہرگز نہیں۔ درحقیقت سُست، نکمے، نالائق اور نااہل لوگوں کا فارمولا ہے، ہوا کے رُخ چلو۔
مجھے یہ فارمولا منظور نہیں۔ مجھے سہل پسندی قبول نہیں۔ میں ا بن الوقت بن کر زندگی گزارنے سے انکاری ہوں۔ مجھے ایسے منافقانہ روئیے کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی سوچ کے لیے ہزاروں دلائل دیتے ہیں۔ یہ لوگ محنت پر یقین نہیں رکھتے۔یہ فرہاد کی طرح نہر یں کھودنا نہیں جانتے، اُنہیں چاند پر قدم رکھتے لوگ بھی پسند نہیں۔ سماج کی تعمیر وترقی اور تربیت سے اُنہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ صرف دولت، لالچ اور دُنیاوی ترقی کے پجاری ہیں۔ اس لیے ایسے ابن الوقتوں کو تاریخ میں نہ کوئی نام ملتا ہے نہ مقام۔

وقت کے بن الوقت، اپنے مفاد کے لالچ میں ڈوبے یہ لوگ انقلابی ہیں نہ انقلاب کے معنی جانتے ہیں۔ ان کا زاویہ نظروقار اور توقیر سے خالی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے لالچ اور فائدے کے لیے ر ا ہ بدل لیتے ہیں۔ یہ شخصیت نہیں محض عام افراد ہوتے ہیں۔ اُن کے اخلاقیات اور اصول ٹکے ٹکے پر بکتے ہیں۔

یہ افراد اساسی فکر سے بے خبر ہیں۔ ان افراد کے پیش نظر مولانا جوہر علی کے افکار ہیں نہ سر سید احمد کے نظریات۔ الجھے ہوئے خیالات، بے مقصد زندگی، موقف کی مضبوطی نہ خیال کی پختگی۔ یہ اہل د ل ہیں نہ اہلِ نظر، منزل اِن کی نظروں سے اوجھل ہے، اخلاقی شعور اِن کی نظروں سے اوجھل ہے۔ شخصیت کی تعمیر اِن کی نظروں سے اوجھل ہے۔ یہ وہ دل ہیں جن میں کچھ پانے کی تڑپ نہیں، یہ وہ نظریں ہیں جو نئے جہانوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ یہ وہ دماغ ہیں جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ سے بھی بے خبر ہیں۔ کام جدوجہد، محنت اور اُس عظمت پر یقین، جو ہوا کے مخالف چلنے سے آپ کے قدم چومتی ہے۔ میرے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا، زندگی کے شارٹ کٹ محض ایک دھوکہ ہے۔ کامیاب اختتام کے لیے شاندار اور پر وقار آغاز ضروری ہے۔ میرے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عظیم شخصیات کے سانچے میں ڈھل کر اُس منزل کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں،جہاں بہت سے نئے جہاں اُن کے منتظر ہوں گے۔

آج کی نوجوان نسل انتشار فکر کی شکار ہے۔ آج اِن کی اصلاح سازی ضروری ہے۔ ایک روایتی نقطہ نظر اور عامیانہ سوچ نوجوان نسل کو ”وہی جہاں ہے تیرا جس کو تو کرے پیدا“سے دور کئے ہوئے ہے۔ سر سید کا مکتب فکر اور اقبالؒ کی شاعری جن کے سروں پر ہو، وہ پھربھی آرام پسندی، سہل پسندی اور من و سلوا کے انتظار میں زندگی گزار دیں یا وقت کے بن الوقت بن جائیں تو اقبالؒ کو قرار آئے گا نہ قائداعظمؒکے خواب پورے ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button