Column

کِسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا … ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

گاﺅں میں رہنے والے غریب کسان کا کمسن بیٹا علی الصبح اٹھا، نہا دھوکر تیار ہوا، اُس نے بستہ گلے میں ڈالا اور ٹاٹ سکول کی طرف روانہ ہوا، راستے میں کچھ ہم جماعت مل گئے ، کچھ آگے نکل گئے، کچھ پیچھے رہ گئے، ندی کی پٹری پر چلتے چلتے اُس نے دیکھا، پانی کے زور سے ایک جگہ سے مٹی کھسک رہی ہے، وہ وہیں رک گیا، اُس نے مٹھیوں سے مٹی بھر بھر کے اُس جگہ ڈالنا شروع کردی تاکہ شگاف پڑنے سے پہلے اُسے روک سکے، پانی منہ زور تھا، تھوڑی سی مٹی اُسے روکنے میں ناکام رہی، پانی زیادہ بہنے لگا تو اُس نے بستہ ایک طرف رکھ کر اپنی کمر شگاف کے ساتھ لگائی تاکہ پانی کو روک سکے، پھر اُس نے گاﺅں کے لوگوں کو آوازیں دیں، لوگ اکٹھے ہوگئے، سب نے مل کر شگاف کو بند کیا ، یوں انہوں نے اپنے گاﺅں کو بڑی تباہی سے بچالیا۔

یہ کہانی بچپن میں بچوں کے کسی رسالے میں پڑھی تھی، ان کہانیوں کا مقصد بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا اور قربانی کے جذبے کو اُبھارنا تھا۔ وقت بدل گیا، ادب کی جگہ بے ادبی نے لے لی، جنہوں نے یہ کہانیاں نہیں پڑھی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت میں کہیں نہ کہیں کچھ کمی رہ گئی۔ ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔ ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن برآمد ہوا، کلبھوشن تمام تر ثبوتوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیامگر اُسے سزا نہ دی جاسکی اور ابھینندن جیسا سفاک دہشت گرد جس نے پاکستان پر حملہ کیا، جب پکڑا گیا تو باعزت رہا کردیاگیا۔
سیاسی ندی میں تین ماہ قبل پانی چڑھنا شروع ہوا ، کسی نے توجہ نہ دی، شگاف پڑ گیا، پھر بھی دھیان نہ دیاگیا، اب پانی تیزی سے بہنے لگا تو ہوش آیاہے۔ مٹی اکٹھی کی جارہی ہے، بڑے بڑے پتھر لائے جارہے ہیں کہ بہتے پانی کو روک سکیں لیکن ایک جگہ مضبوط کرتے ہیں تو پانی کسی اور کمزور جگہ سے بہہ نکلتا ہے۔ اُدھر توجہ دیتے ہیں تو کوئی اور کنارہ ٹوٹ جاتا ہے، پورا گاﺅں باگ دوڑ کررہاہے مگر بہت تاخیر سے کام شروع کیاگیا ہے، کام خاصا بگڑ چکا ہے، جبھی تو وزیر داخلہ شیخ رشید کہنے پر مجبور ہوئے کہ ”مختیاریا گل ودھ گئی اے“۔ وہ کہتے ہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ ایک برس تحریک انصاف اور اُس کی حکومت کودے دیں، ایسا نہ ہو کہ دس برس دینے پڑ جائیں۔ شیخ صاحب کی بات سے اغماز برتنا مشکل ہے۔ غور کرنا ہوگا وہ مالک مکان کے عزائم کی خبر دے رہے ہیں یاصرف اپوزیشن کو ڈرا دھمکارہے ہیں، شیرآیا، شیر آیا کہہ کر سوئی ہوئی قوم کو جگانا اُن کی پرانی عادت ہے اور نصف پاکستان اِس کا عادی ہوچکا ہے۔ ان کی آواز پر باہر نکل کر نہیں دیکھتا کہ کیا ہورہا ہے۔ 1999
ءمیں ایک مرتبہ جناب شیخ کا کہا درست ہوگیا تھا شیر واقعی آگیا، پھر اُس نے اپنے شکار کودبوچ لیا۔
سیاسی کھیل کے پہلے ایکٹ میں اپوزیشن نے اپنے پرانے ساتھیوں سے کہا کہ حکومت کے اتحاد سے نکل آئیں اور پنجاب کی چیف منسٹری لے لیں مگر صرف تین ماہ کے لیے ۔ اِس کے بعد انتخابات ہوں گے۔ یہ خبر باہر آئی تو حکومت چودھری برادران کے گھر پہنچ گئی اور پیش کش کی جناب تین ماہ کی بجائے آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں اور آئندہ ڈیڑھ برس کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب رہیں، مزید برآں وفاق میں ایک آدھ اور وزارت بھی لے لیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے لیے صرف پنجاب کی وزارت اعلیٰ میں زیادہ کشش نہیں ہے وہ ڈپٹی پرائم منسٹر رہ چکے ہیں وہ بڑے عہدوں کے ریٹائرمنٹ بینفٹ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ مستقبل کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، پس انہوں نے کوئی فوری فیصلہ نہیں کیا ۔ اپوزیشن نے حکومتی پیش کش کے بعد ان سے پھر رابطہ کیا اور اس بات پر آمادہ ہوگئی کہ اگر وہ اِن کے ساتھ آجاتے ہیں تو ڈیڑھ برس تک اسمبلیاں نہیں توڑی جائیں گی۔ وہ وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے اِس کے علاوہ مزید چھ ماہ تک مختلف بہانوں سے انتخابات کو آگے لے جایا جاسکتا ہے، لہٰذا دو برس حکومت میں رہیں، یہ پیش کش خاصی مسحور کن ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے یہی پیش کش دیگر اتحادیوںکو بھی کی جارہی ہے ، جس کے سبب ایک مرتبہ پھر اتحادی جماعتیں نکاح ِ سرکار سے خلع لینے پر مائل نظر آتی ہیں۔ حکومتی کوشش ہے کہ اِس کی بجائے وہ انہیں تین طلاقیں دے مگر کم ازکم ایک برس بعد ۔
حکومت کے ایک اہم وزیر نئے تھال میں شیرینی سجاکر اپوزیشن رہنماﺅں سے ملے ہیں، جس کے مطابق تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے تو حکومت چھ ماہ میں انتخابات کرادے گی۔ اپوزیشن کی طرف سے اِس تجویز کو رد کردیاگیا ہے۔ اِن کا کہنا ہے کہ حکومت کو جس قدر بھی وقت دیاگیا اِس میں اِس کا فائدہ اور اپوزیشن کا نقصان ہے۔ حکومت اپنے عوامی اہمیت کے منصوبے تیزی سے مکمل کرنا چاہتی ہے، وہ آنے والے بجٹ میں عوام کو ناقابل یقین سہولتیں دے کر اپوزیشن یا آئندہ انتخاب ہارنے کی صورت میں نئی حکومت کے لیے راہ میں کانٹے ہی نہیں خاردار تاریں بچھاسکتی ہے، جنہیں کاٹنے میں انہیں کئی برس لگ جائیں گے۔ اِس دوران ملک میں بھرپور جلسے، اجتماعات کرکے اپوزیشن کی خامیوں اور اپنی خوبیوں کا خوب پرچار کرکے نئے انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنا ترجیح اول ہے۔ چند روز قبل ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں او آئی سی وزرائے خارجہ سمٹ اور یوم پاکستان پریڈکے حوالے سے انتظامات کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے ، یہ دونوں ایونٹ حد درجہ حساس ہیں، ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کے اعلان کردہ سیاسی اجتماعات رکاوٹیں پیداکرسکتے ہیں کیوں کہ فریقین نے اپنے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے اور تحریک عدم اعتماد کے فیصلے تک وہیں قیام کا حکم دیاہے۔ چودھری شجاعت حسین تجربہ کاراور زیرک سیاست دان ہیں، وہ اِن اجتماعات کو منسوخ کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں جو قابل ستائش ہے۔ اِس پر عمل کرنے سے کسی کی عزت و مقبولیت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ یہ فیصلہ معقولیت کے ضمن میں دیکھا جائے گا۔
تحریک عدم اعتماد کے فیصلے کے دن اگر ہنگامہ آرائی بڑھ گئی ، جس کے امکانات روشن ہیں تو پھر یہ معاملہ کیسے حل ہوگا، اہم ترین سوال یہی ہے۔
نیوٹرل رہنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کی زندگیوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کے سلسلے میں آئینی عمل کو خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچانے میں اپناکردار ادا کریں۔
تمام اتحادی اپنا حتمی فیصلہ کرنے کے بعد اگر ایک پریس کانفرنس میں اکٹھے ہوجائیں تو اُن کی گنتی سے تمام ابہام ختم ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ آج بھی اکثریت میں ہے تو صدر پاکستان، جناب وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں، یوں حکومت کو 172ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے جب سامنے ایک بڑا لشکر یلغار کے لیے تیار نظر آئے تو فقط 72نکلتے ہیں۔ اب قارئین کی نذر دو شعر۔
چند لمحوں کی رفاقت ہی غنیمت ہے کہ پھر
چند لمحوں میں یہ شیرازہ بکھر جائے گا
اپنے خوابوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے
کسے معلوم پھر کون کدھر جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button