Column

تین سو پچاس ملین ڈالر ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سعودی عرب میں کوئی غیر ملکی زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اب تو سعودی عرب میں ماسوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تمام شہروں میں غیر ملکی زمین خرید سکتے ہیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت کا دوسرا دور تھا۔ جدہ کی سعودی کمپنی میں کام کرنے والے ایک پاکستانی نے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کو مکہ مکرمہ میں عازمین حج کے لیے رہائشی کمپلیکس تعمیر کرکے دینے کا مشورہ دیا۔ آصف زرداری نے سیکرٹری مذہبی امور لطف اللہ مفتی کو اپنے آفس میں طلب کرکے تین سو پچاس ملین ڈالر کا انتظام کرنے کو کہا۔ سیکرٹری صاحب نے انہیں مشورہ دیا آپ کے دوست مکہ مکرمہ میں ہمیں کمپلیکس بنا کر دے دیں ہم عازمین حج کے لیے اسے کرایہ پر لے لیا کریں گے۔ سیکرٹری کی اس تجویز سے آصف علی زرداری نے اتفاق کیا۔جب سیکرٹری اپنے آفس واپس آئے تو زرداری صاحب نے انہیں فون پر کہا کہ آپ کی تجویز قابل عمل نہیں ہے لہٰذا آپ رقم کا بندوبست کریں۔ عازمین حج کی بہبود کی تنظیم کے حوالے سے ہمارا وزارت مذہبی امور میں آنا جانالگا رہتا تھااور سیکرٹری مذہبی امور سے ہماری خاصی قربت تھی۔ایک روز انہوں نے اپنی پریشانی سے ہمیں آگاہ کیا۔سیکرٹری مذہبی امور آصف زرداری کی تجویز سے اتفاق کرنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں تھے۔ جب انہوں نے سمری بھیجنے میںلیت و لعل کیا چندروز بعد لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے زبیر قدوائی کو ایڈیشنل سیکرٹری انچارج مذہبی امور لگا دیا گیا۔

مرحوم جہانگیر بدر وفاقی وزیرپٹرولیم تھے انہیں مذہبی امور کا ایڈیشنل چارج بھی ملا ہوا تھا۔ چونکہ اوپر سے حکم ملا ہوا تھا اسی لیے زبیر قدوائی کو مذہبی امور میں لایا گیا ۔ چند دنوں بعد وفاقی کابینہ سے مکہ مکرمہ میں عازمین حج کے لیے کمپلیکس کی تعمیر کی منظوری لے لی گئی۔ کابینہ کی منظوری کو چند روز گذرے تھے کہ سردار فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا ۔ ہماری تنظیم کے صدر سینیٹر حاجی ملک فرید اللہ خان کو مذہبی امور کی وزارت کا نگران وفاقی وزیر مقر ر کر دیا گیا۔ ایک روز زبیر قدوائی مجھے کہنے لگے کہ صدر مملکت نے مکہ مکرمہ کمپلیکس والی فائل طلب کر لی ہے اور منسٹر صاحب کوفائل سمیت بلوایا ہے ۔ قدوائی کہنے لگے اگرچہ فاروق لغاری ان کے بیج میٹ ہیں مگر اب وہ صدر پاکستان ہیں مجھے خدشہ ہے وہ انہیں ملازمت سے معطل نہ کردیں لہٰذا آپ منسٹر صاحب سے کہیں کہ جب وہ صدر مملکت کے پاس فائل لے کر جائیں تو انہیں بھی ساتھ لے چلیں۔ ہم نے حامی بھر لی ۔جب میں نے منسٹر سے بات کی تو وہ انہیں ساتھ لے جانے پر رضامند ہو گئے۔خیر زیبر قدوائی معطل تو نہیں ہوئے انہیں تبدیل کرکے لطف اللہ مفتی کو دوبارہ سیکرٹری مذہبی امور مقر ر دیا گیا۔ اس دوران نگران کابینہ نے مکہ مکرمہ کے کمپلیکس کے معاہدے کی منسوخی کی منظوری دے دی۔ چونکہ جدہ کی کمپنی سے مکہ مکرمہ کے کمپلیکس کی تعمیر کا تحریر ی معاہدہ ہو چکا تھا۔ وفاقی کابینہ نے معاہدہ منسوخ کرنے کی منظوری دی تو کمپنی اس فیصلے کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں چلی گئی ۔ حکومت پاکستان کے خلاف یہ مقدمہ ابھی تک زیر التواءہے۔ دراصل اس سارے قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان قومی خزانے کو ذاتی خزانہ سمجھ کر اس طرح کے کام کرتے ہیں اور قومی خزانہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاتا ہے اور عوام میں بھی رسوائی بھی ہوتی ہے۔
اگرچہ بعض سیاست دان اس طرح کے غیر قانونی کام کرنے میں بدنامی کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں لیکن سیاست دانوں کے اس قسم کے غیر قانونی کاموں سے ملک و قوم کا نقصان ضرور ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم بے نظیربھٹو تھیں توآصف علی زرداری کس حیثیت میں اس طرح کے غیرقانونی احکامات بیوروکریسی کو دیتے تھے؟ شاید اسی لیے بیورو کریسی سیاست دانوں کے غیر قانونی کام نہ کرنے سے بدنام ہے ۔ یہ بات سب جانتے ہیںکہ عازمین حج کو اللہ تعالیٰ کا مہمان کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ سعودی حکومت ضیوف الرحمن کی خدمت کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کے نام پر قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش سے باز نہیں رہتے ۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول تحریک انصاف کے اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بعض سیاست دان اٹھارہ اٹھارہ کروڑ کی پیش کش کر رہے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے وہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے ہیں۔ نیب کسی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ بنا ئے تو اسے انتقامی سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نیب کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ نیب سے کرپٹ سیاست دانوںکو خاصی پرکاش ہے ۔ نیب کا ادارہ نہ ہوتا توکرپٹ سیاست دان اب تک مقدمات سے جان بخشی کر اچکے ہوتے۔ کرپٹ سیاست دانوں کو نیب اسی لیے تو کھٹکتا ہے۔ جہاںتک عازمین حج کی رہائش کے لیے کمپلیکس کی تعمیر کا معاملہ ہے تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کسی غیر ملکی کو قطعہ اراضی خریدنے کی اجازت نہیں تھی تو جدہ کی کمپنی کے وہ لوگ جن کا تعلق زرداری صاحب سے تھا ، تین سو پچاس ملین ڈالر کے حصول کا مقصد کیا تھا؟ یہ فائل تو اب بھی وزارت مذہبی امور کے ریکارڑ میں موجود ہے، نیب کو اس معاملے کی تحقیق کرنی چاہیے۔ گو تین سو پچاس ملین ڈالر قومی خزانے سے وہ نکلوانے میں وہ کامیاب تو نہ ہو سکے تاہم قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی تو کوشش کی گئی ۔ ہم وزیراعظم عمران خان سے کہیں گے کہ وہ تین پچاس سوپچاس ملین ڈالر ہڑپ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کریں تاکہ قوم ان سیاست دانوں کی اصلیت سے آگاہ ہو سکے۔
کہتے تھے سیاست تو ایک طرح سے عبادت ہے شاید یہ مقولہ پرانا ہو چکا ہے اب تو سیاست نے ایک بہت وسیع کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کو لوٹنے سے باز نہیں آتے حق تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اس وقت عوام کرپٹ سیاست دانوں کے انجام کے منتظر ہیں۔ حکومت چلی بھی جائے کرپشن کے مقدمات ختم نہیں ہو سکتے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button