Column

ماں بولی دیہاڑ اور پنجابی زبان ….. مظہر چودھری

مظہر چودھری
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21فروری ماں بولی دیہاڑ یا مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔یہ دن مادری زبانوں کو انحطاط سے بچانے اور اقوام عالم میں کثیر السانیت ، کثیر الثقافت اور کثیر القومیت جیسے عظیم عمرانی اصولوں کو پزیرائی دلوانے کے مقاصد کے لیے منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پہلی مرتبہ مادری زبان کا عالمی دن21فروری2000کومنایا گیاتاہم اس دن کو منانے کی تحریک 21فروری1952کوڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ کے جلوس پر پولیس کی فائرنگ کے واقعے کے نتیجے میں شروع ہوئی جوبنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔فائرنگ کے اس واقعے میںآٹھ طلبہ کے مارے جانے کے بعد یہ احتجاج ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان میں 1954 میں ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ مخالف جماعت یونائیٹڈ فرنٹ سے بری طرح ہار گئی اور اس شکست کے بعد اس وقت کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی ملک کی قومی زبان قرار دے دیا۔1963میں طلبہ کی شہادت کی جگہ پرشہید مینار تعمیر کر کے21فروری کو یوم شہدائے بنگلہ کے طور پر منایا جانے لگا۔ 71کی جنگ کے دوران ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں یہ مینار مسمار ہو گیا۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے شہید مینار دوبارہ تعمیر کرایا اور21فروری کو یوم شہدا باقاعدگی سے منانا شروع کر دیا۔17نومبر1999کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے بنگلہ دیش کی تحریک پر 21فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا۔
پس منظر واضح کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ارباب اقتدار اس حقیقت کا ادراک کر سکیں کہ کسی بھی علاقے یا صوبے کی ماں بولی یا مادری زبان کو اس کا جائز مقام دینے سے گریز کی پالیسی اس زبان کے بولنے والوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے جوبعض اوقات آگے چل کر مزاحمت اورباقاعدہ تحریک کی شکل بھی اختیار کر جاتی ہے ۔تلخ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں دیگر صوبائی زبانوں کے برعکس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی زبان کو سرکاری سطح پر”own“نہیں کیا جا رہا۔ پنجابی زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے کوشاں ادارے کئی سالوں سے پنجابی کو سکول اور کالجز میں لازمی مضمو ن کے طور پر پڑھانے کے مطالبے کااعادہ کر رہے ہیں لیکن ان کے پرامن مطالبے کو درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا جا رہا۔ یونیسکو1953سے لے کر آج تک متواتر پرچار کر رہا ہے کہ 100فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے بچے کو اس کی مادری زبان میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے مگر یونیسکو کا یہ پرچار پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ گذشتہ کئی سالوں سے حکومتی کوششوں کے باوجود ابھی بھی سوا دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ۔اگرچہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے سکولوں سے باہر ہونے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں تاہم مادری زبان کی بجائے غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا بھی اہم وجہ ہے۔
پاکستانی دستور کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا عالمی منشور بچوں کا اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا بنیادی حق تسلیم کرتا ہے۔ دنیا بھر میں تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دینے سے بچے نسبتاً بہت تیزی سے سیکھتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد کل آبادی کا محض تین فیصد ہے لیکن پنجابی ہندوستان کی ریاست پنجاب کی سرکاری زبان ہے۔ مزید براں پنجابی کو ہندوستانی ریاستوں ہریانہ اور دہلی میں دوئم زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے پاکستان میں 11کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے پنجاب میں پنجابی کو کسی قسم کی سرکاری پشت پناہی حاصل نہیں ۔ صوبے میں پنجابی زبان کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنا تو دور کی بات،پنجابی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پنجابی میں بات کرنے کے لیے اسمبلی کے سپیکر سے اجازت لینی پڑتی ہے اور ایسا کسی اور صوبے میں نہیں۔پاکستان سیاسی، فوجی اور معاشی قوت کے حوالے سے ایک پنجابی ریاست ہے جس کو پارلیمنٹ، فوج اور دیگر سول اداروں ، تجارت اور صنعت میں بالا دستی حاصل ہے۔پنجابی جاگیردار سیاست اور ریاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیںمگر پنجابیت کے حوالے سے انکی سرگرمیاں بالکل متصادم ہیں اور یہ حکمران طبقہ کے زبان و اظہار کے غلام ہیں۔ 74 سالوں سے پنجابی اگر صوبے میں اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکی تو اس کی زمہ داری پڑھے لکھے پنجابیوں اور بیوروکریسی پر ڈالی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنے لسانی حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے کی بجائے مہاجر بیوروکریسی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ بدقسمتی سے پنجاب میں اس زبان کے مختلف لہجوںاور تلفظ کی وجہ سے پنجابی زبان کے فروغ کی بڑے پیمانے پر کوئی اجتماعی تحریک جنم نہیں لے سکی۔آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پڑھی لکھی مڈل اور ایلیٹ کلاس نہ صرف سماجی سطح پر پنجابی بولنے میں ہچکچاہٹ اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں بلکہ گھروں میں بھی پنجابی بولنا توہین سمجھتے ہیں۔
کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ پنجاب میں آپ جب پہلی مرتبہ بچے کو سکول بھیجتے ہیں تو اس پر دو ظلم کرتے ہیں ۔ایک تو اس سے پہلے ماں کی گود چھین لیتے ہیں اور دوسرا اس سے ماں بولی بھی لے لیتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں بچے اگر بھولے سے بھی پنجابی زبان میں چند جملے بول لیں تو انہیں آوارہ اور بد تہذیب گردانا جاتا ہے۔پنجاب کی پڑھی لکھی مڈل اور ایلیٹ کلاس کی خواتین گھروں میں بچوں کو پنجابی میں بات نہیں کرنے دیتیں۔جب گھروں اور تعلیمی اداروں میں ماں بولی میں بات چیت یا ذریعہ اظہار کی اجازت نہیں ہو گی تو آہستہ آہستہ اس زبان کا استعمال عام بول چال میں بھی کم ہوتا جائے گا۔ یونیسکو کے مطابق جب کوئی زبان غائب ہوتی ہے تو اپنے ساتھ پوری ثقافت اور انٹیلکچول وراثت بھی لے جاتی ہے۔عالمی سطح پر مادری زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جارہا ہے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ادب کا نوبیل انعام اب تک 25ایسے افراد کو دیا جا چکا ہے جنہوں نے تخلیقی کام اپنی مادری زبانوں میں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں بھی مادری زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے سنجیدگی سے سوچ بچار کی جائے۔ پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ابتدائی طور پر ناگزیر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حکومت صوبے میں پرائمری سطح سے کالجز تک پنجابی زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت سے نصاب کا حصہ بنانے کافوری اعلان کرے۔اس کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان کو صوبے کی سرکاری، عدالتی اور دفتری زبان بنانے کے لیے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button