Column

یہ کہاں تک سچے ہیں؟ …… روشن لعل

روشن لعل

بچپن سے یہ سنا اور درست بھی سمجھا کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے ۔ ملک میں زیر بحث موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو یوں آگے بڑھایاجا سکتا ہے کہ صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے بلکہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کیوں کہہ رہا ہے۔ بات کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو اس کی بات کرنے کی وجہ سمجھے بغیر سچ کا مطلق ادراک ممکن نہیں ہے۔عمومی طور پر سچ اور جھوٹ کا فرق یوں بیان کیا جاتا ہے کہ سچ موجود ہوتا ہے جبکہ جھوٹ بنایا جاتا ہے ۔

جس سماج میں ایسے کاریگروں کی فوج ظفر موج موجود ہوجو انتہائی مہارت سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کا ہنر جانتی ہو، وہاںبناوٹوں کے سامنے سچ کا مفہوم بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ جاتا ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں جگہ سچ اور فلاں جگہ جھوٹ کا راج ہے مگر ہمارے لیے شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہاں بناوٹ کا راج ہے ۔ یہاں صرف انسانوں کا سچ اور جھوٹ ہی نہیں بلکہ ان کے کردار بھی بناوٹی ہیں۔ اس بندے کے کردار کی بناوٹ سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے جو پہلے تو عرصہ دراز تک ایک خاص شہرت کی حامل کسی ٹیم کا سرگرم رکن رہا ہو مگر پھر اس ٹیم سے راہیں جدا ہونے کے بعد وہ اسی شہرت کو ہدف تنقید بنانا شروع کردے ۔ اگر سیدھی بات کی جائے تو اس طرح کے کردار کی مثال کے لیے اس وقت محسن جمیل بیگ سے بڑھ کر کوئی اور نام نہیں ہو سکتا۔
حکومتی جبر اور امتیازی سلوک کا شکار ہونے کی وجہ سے یہاں بہت سے لوگوں کی ہمدردیاں محسن جمیل بیگ کے ساتھ ہیں۔ محسن جمیل بیگ کے ساتھ روا رکھے جانے والے حکومت کے جبر اور امتیازی رویے کو کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا مگر اس روش کو بھی مناسب تصور نہیںکیا جاسکتا کہ ایک فریق کے رویے کی توشدید مذمت کی جائے اور دوسرے فریق کے کردار کی بناوٹ کو سراسر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہاں ہر کوئی جانتا ہے ، اس لیے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ محسن جمیل بیگ کے کس بیان کی وجہ سے حکومت نے ریاستی وسائل استعمال کرتے ہوئے اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا مگر یہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ محسن بیگ نے ریحام خان کی جس کتاب کا حوالہ دے کر مراد سعید کو ہدف تنقید بنایا ، ا س کتاب کے منظر عام پر آنے کے قریباً تین سال بعد تک وہ عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتا رہا ۔
جن انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے عمران خان نے حکومت بنائی وہ 25 جولائی 2018 کو منعقد ہوئے تھے۔ ریحام خان کی کتاب الیکشن2018 کے انعقاد سے ایک مہینہ پہلے منظر عام پر آچکی تھی۔ ان انتخابات سے بہت پہلے اور ان کے دوران عمران خان کو کامیاب کرانے کے لیے محسن بیگ نے پی ٹی آئی کے بادشاہ گروں کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا۔ ریحام خان کی کتاب منظر عام پر آنے سے پہلے ہی اس کے مندرجات افواہوں کا حصہ بنادیئے گئے تھے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ جو مخصوص افواہیں پھیلائی گئیں انہیں برسرعام کرنا اکیلے ریحام خان کے بس کی بات نہیں ہو سکتی تھی ۔ مبینہ طور یہ کام اس میڈیا سیل کے ذریعے کیا گیا جس کو اس طرح کے کاموں کے لیے1980کی دہائی میں بنایاگیا تھا۔ افسوس کہ اس طرح کا میڈیا سیل بنانے اور اس کا بے شرمی سے استعمال کرنے والوں کی اپنی بہو بیٹیاں بھی پھر ان کے مخالفین کے اسی طرز پر بنائے گئے میڈیا سیل کے شر سے محفوظ نہ رہ سکیں۔اگر محسن جمیل بیگ کے طرز عمل کی بات کی جائے تو اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے کوئی نیا کام نہیںکیا بلکہ یہاں گند اچھالنے کی جس روایت کا آغاز 1980کی دہائی میں ہوا تھا اس میں اپنا حصہ ماہر کاریگر کے طور پر ڈالا ہے ۔ یہ الگ بات ہے اس نے ایک خاص گند کو جن لوگوں کے لیے طعنہ بنایا یہ خود بھی ایک عرصہ تک ان لوگوں کا لازمی حصہ بنا رہا۔
محسن بیگ نے جن لوگوں پر گند اچھالا انہوں نے اپنے اقتدار کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اسے سوا سیر بن کر جواب دیا۔ جو سیر کے خلاف سوا سیر بن کر سامنے آئے ان کی اپنی گند اچھالنے کی صلاحیت بھی کسی سی کم نہیں ہے ۔ یہ لوگ حکومت کی طاقت استعمال کرنے میں ہی نہیں گند اچھالنے میں بھی سوا سیر ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہاں گند اچھالنے کی روایت کو مضبوط سے مضبوط تر ہوتا دیکھ کر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی اگران پر گند اچھالنے کا سلسلہ جاری رہا تو اقتدار کی طاقت کے بغیر سوا سیر بننے کے لیے جوابی گند اچھالنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہو گا۔ مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا ہونے پر یہ نہ جانے کیا کریں گے مگر اپنے اوپر اچھلنے والے گند کو مستقل دبانے کے لیے ان کے پاس صرف یہ آپشن ہے کہ ریحام خان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے برطانیہ میں اس کے خلاف ہتک عزت اور ہرجانے کا دعویٰ کردیں۔
پاکستان میں تو کسی کے جھوٹ اور بناوٹ کا مواخذہ کرنا ممکن نہیں لیکن برطانیہ میں جھوٹے کو جھوٹا اور سچے کو سچا ثابت کرنا عین ممکن ہے ۔ برطانیہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ وہاں ریحام خان نے اگر ایک معاملے میں خود کو سچا ثابت کیا تو دوسرے میں کسی نے اسے جھوٹا بھی ثابت کردیا گیا ۔ ریحام خان کی کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد شیخ رشید نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر ریحام کو ” طوائف بدھن بائی“ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے میاں شہباز شریف سے بھاری رقم وصول کر کے عمران خان کے خلاف کتاب لکھی۔ جس چینل پر یہ پروگرام نشر ہوا اس کی نشریات کیونکہ برطانیہ میں بھی دیکھی جاتی ہیں اس لیے ریحام خان نے اس چینل کے خلاف لندن کے رائل کورٹ آف جسٹس میں ہتک عزت کا دعویٰ کیا۔ اس کیس میں پاکستانی ٹی وی چینل نے نہ صرف ریحام خان سے معافی مانگی بلکہ اسے ہرجانہ بھی ادا کیا۔ اس کے بعد جب ریحام خان نے نیو یارک کے روزویلٹ ہوٹل کی فروخت کے حوالے سے یہ کہاکہ زلفی بخاری ، انیل مسرت اور عمران خان کی ملی بھگت سے یہ ہوٹل انیل مسرت کو مارکیٹ سے انتہائی کم قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے تو برطانیہ میں ریحام پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا گیا ۔ اس کیس میں ریحام خان کو جھوٹا ثابت ہونے پر زلفی بخاری اور انیل مسرت سے معافی مانگنے کے ساتھ انہیں ہرجانہ بھی ادا کرنا پڑا ۔
جب ریحام خان کو برطانیہ میں جھوٹا ثابت کرنے کا یقینی امکان موجود ہے توآج جن پر گند اچھل رہا ہے انہیں اس گند کو مستقل دبانے کے لیے ریحام کو ضرور جھوٹا ثابت کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی عوام کو یقین ہو سکے کہ یہ کہاں تک سچے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button