کوئی خطرہ نہیں
تحریر : سیدہ عنبرین
یو اے ای بالخصوص ابوظہبی، دبئی اور شارجہ میں مقیم پاکستانیوں کو بعد از عید یوں ہی محسوس ہوا جیسے وہ لاہور پہنچ گئے ہیں یہ گھریلو ماحول انہیں اچانک ہی نصیب ہوا۔ 15اپریل کی شام ٹیلی ویژن پر بتایا گیا کہ آئندہ 3روز تیز ہوائوں کے جھکڑ چلیں گے اور بھرپور بارشیں ہونگی لہٰذا تمام سکولوں میں چھٹی دے دی گئی اور بتایا گیا کہ طلباء گھروں میں بیٹھ کر آن لائن کلاسز لیں گے۔ ذوق و شوق سے سکول جانے والے بچے یہ خبر سن کر اداس جبکہ سکول نہ جانے کا رجحان رکھنے والے بچے بہت خوش ہوئے آئندہ صبح آن لائن کلاسز کا آغاز ہو چکا تھا لیکن بارش کا دور دور تک نام نشان نہ تھا، خیال گزرا کہ یہاں کا موسم اور محکمہ موسمیات بھی پاکستان کے موسم اور محکمہ موسمیات جیسا ہے جس نے چند روز قبل بتایا تھا کہ مکمل سورج گرہن ہو گا اور دن میں رات ہو جائے گی یعنی گہرا اندھیرا ہو جائے گا یہ خبر سن کر اہل پاکستان کو زیادہ پریشانی نہ ہوئی کیونکہ پاکستان گزشتہ دو برس سے سیاسی اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ دس پندرہ برس سے معاشی اندھیروں میں ڈوبا ہے لہٰذا اہل پاکستان اندھیروں میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں دن کی روشنی میں بھی ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھنا فطرت ثانیہ بن چکی ہے ہر قدم پر ٹھوکر لگنے اور ٹھوکر کے بعد ہڈیاں تڑخنے کا احتمال رہتا ہے۔
بچوں کی آن لائن کلاسز جاری تھیں کہ گہرے بادل آئے اور انہوں نے برسنا شروع کر دیا پھر ایسے برسے کہ یو اے ای کی تاریخ میں گزشتہ 70برس میں اتنی بارش اتنا پانی کسی نے نہ دیکھا۔
دوپہر ہونے تک زندگی معطل ہو چکی تھی لیکن بارش بھرپور رفتار سے جاری تھی دھیان محکمہ موسمیات کی طرف گیا انہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا انہیں کوئی غلط فہمی نہ ہوئی تھی ان کی پیش گوئی پر اعتبار نہ کیا گیا، شام سے رات اور رات سے آدھی رات ہو گئی پانی چڑھنا شروع ہوا اور پھر پانی نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا وہ اوپر ہی اوپر چڑھتا گیا خوش قسمت وہ رہے جنہوں نے دفتروں کا وقت ختم ہونے پر باہر دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اپنی گاڑی چلا کر گھر نہیں پہنچ سکتے، انہوں نے اپنی گاڑیاں سڑک کی ایک جانب کھڑی کر دیں اور پانچے گھٹنوں تک چڑھا کر پا پیادہ سفر شروع کر دیا وہ میٹرو سٹیشن پہنچے تو اسے پانی میں ڈوبا پایا بسیں کھڑی تھیں لیکن پانی ان کے اندر پہنچ کر سیٹوں کے بوسے لے رہا تھا کچھ من چلوں نے اپنے گھروں کی جانب چلنا شروع کیا ان کے ذہن میں یقیناً یہ بات ہو گی کہ سفر شروع کرتے ہیں کبھی نہ کبھی تو ختم ہو ہی جائے گا کون کس طرح اپنے گھر پہنچا یہ تو وہ خود ہی بتا سکتا ہے لیکن ٹی وی چینلز کے کیمروں نے دکھایا کہ دبئی کی شیخ زاید روڈ، شیخ محمد بن زاید روڈ، الجار روڈ اور شیخ راشد روڈ کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب چکی تھیں چھوٹی بڑی گاڑیاں پانی میں تیرتی نظر آئیں یہی حال وہاں کے میٹرو سٹیشن کا تھا جو پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، دبئی ہلز مال اور دبئی مال 24گھنٹے لوگوں سے بھرے نظر آتے ہیں پانی میں یوں گھر چکے تھے جسے فلموں میں کشتی کو سمندر میں گھرا دیکھتے ہیں جو ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ ملتا جلتا حال شارجہ کا تھا، الواحدہ اور موبیلا کے علاقے پانی میں ڈوب چکے تھے پانی رہائشی عمارتوں اور کمرشل بلڈنگوں کے تہہ خانوں میں پہنچ گیا جو عموماً کار پارکنگ کیلئے استعمال ہوتے ہیں وہاں کھڑی گاڑیاں ڈوب گئیں جو لوگ دفتروں سے بروقت نہ نکل سکے انہیں رات دفتروں میں ہی گزارنا پڑی جبکہ ان کے گھر اور گھر والے بھی پانیوں میں گھرے رہے۔
دبئی و شارجہ مکمل طور پر لاہور اور نواحی علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے کمی نظر آئی تو فقط ایک چیز کی وہ یہ کہ یہاں کوئی شہباز شریف نظر نہ آیا جو فل بوٹ پہن کر پانی میں اتر کر تصویریں بنواتا اور اپنی ویڈیو تیار کر کے اپ لوڈ کراتا اور قوم کو یقین دلاتا کہ ’’ مصیبت کی گھڑی میں ہم عوام کے ساتھ ہیں‘‘ اور پانی کا آخری قطرہ نکلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
ماہ رمضان میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے مسلمان دنیا کے کونے کونے سے حجاز کا رخ کرتے ہیں اس برس ڈھائی کروڑ افراد نے عمرہ کی سعادت حاصل کی پاکستان سے 23لاکھ افراد نے سفر حجاز کیا، جاری ایام میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد لوگوں کی واپسی ہو رہی تھی۔ دبئی ایئر پورٹ دنیا کے بڑے اور مصروف ترین ایئر پورٹس میں سے ایک ہے یہاں پر ایک منٹ کے بعد ایک جہاز لینڈ کرتا ہے۔ ایک جہاز پرواز کرتا ہے، دبئی کی قومی ایئر لائن کیلئے ایک ٹرمینل مخصوص ہے جو سب سے زیادہ مصروف رہتا ہے دوسرا ٹرمینل دیگر غیر ملکی ایئر لائنز کیلئے ہے جبکہ تیسرا ٹرمینل چھوٹی ایئر لائنز کیلئے ہے، تینوں پر ایئر ٹریفک دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ ایئر پورٹ لاہور کا بادامی باغ والا بسوں کا اڈہ ہے۔
بارش اتنی شدید تھی کہ ایئر پورٹ کو جانیوالے تمام راستے مسدود ہو گئے رن وے پانی میں ڈوب گئے سو سے زائد فلائٹیں متاثر ہوئیں آنے والے جہاز آ نہ سکے جانے والے جہاز پرواز نہ کر سکے۔ اس صورتحال میں دبئی کا وسیع ایئر پورٹ اور شارجہ کے ایئر پورٹ لائونج اژدھام کے باعث قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے عورتیں، بچے، جوان، بزرگ کسی کو کسی کی ہوش نہ تھی ہزاروں افراد پھنس گئے اور 24گھنٹے تک یہی کیفیت رہی، ایئر پورٹس کے علاوہ اہم مقامات پر ڈیوٹی کرنے والے اپنے اپنے پوائنٹس پر نہ پہنچ سکے یوں ایک اور بحران پیدا ہو گیا، لیکن بجلی بند نہ ہوئی کمپیوٹر چلتے رہے سب ایک دوسرے سے باخبر اور رابطے میں رہے۔ پاکستان میں ایسی صورتحال ہو تو سڑک کی ایک طرف ڈوب جاتی ہے لہٰذا دوسری طرف جو ڈوبنے سے قدرے بچ جاتی ہے یا ادھر نسبتاً کم پانی ہوتا ہے ٹریفک کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ یو اے ای میں ایسا نہیں ہو سکا اگر سڑک بند ہے تو پھر بند ہے آپ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آنے والی سڑک سے جا نہیں سکتے اور نہ ہی آتے یا جاتے ہوئے گہرا پانی دیکھ کر الٹے قدموں لوٹ سکتے ہیں یہ بہت بڑا جرم ہے اس کا ارتکاب کرنے والوں کو بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے اسی طرح اگر ٹیکسی یا پرائیویٹ گاڑی گہرے پانی میں بند ہو جائے تو اسے بھی نالائقی سمجھا جاتا ہے کہ پانی نظر آنے کے باوجود اس میں اپنی گاڑی کو کشتی سمجھ کر چلانے کی کوشش پر بھی جرمانہ ہوتا ہے۔
ٹھیک 24گھنٹوں میں لکشمی چوک اور دو موریہ پل نظر آنے والا علاقہ ایک مرتبہ پھر نہار ہو کر دولہا بن گیا، پانی کہاں گیا اسے کیسے نکالا گیا سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے ہو گیا کچھ عجب نہیں یہ پانی کہیں کسی ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہو اور پوچھتا نظر آئے مجھے کس نے نکالا مجھے کیوں نکالا، زندگی معمول کی طرف لوٹ آئی ہے یوں لگتا ہے جسے سب کچھ ایک خواب تھا ہم خواب ہی خواب میں لاہور پہنچے تھے آنکھ کھلی تو سہانا سپنا ٹوٹ گیا۔ زندگی رواں دواں ہے، موسم نے ساتھ ساتھ زندگی بھی خوشگوار ہے کوئی مافیا کہیں موجود نہیں کسی کو کسی سے خطرہ نہیں، سستی روٹی کے لالے نہیں پڑے کہیں کوئی چھت نہیں گری کوئی ملبے تلے دب کر نہیں مرا۔