Ahmad NaveedColumn

زندگی کے پچھتاوے

تحریر : احمد نوید
ہر انسان اپنے سینے پر کچھ بوجھ لے کر جی رہا ہے۔ میرے سینے پہ بھی کچھ بوجھ ہیں۔زندگی کے کچھ پچھتاوے ہیں ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے۔ جب میں ناروے میں تھا۔
دوران تعلیم میں جس ہاسٹل میں قیام پذیر تھا ۔اس ہاسٹل کی سیڑھیوں پر ایک چاٹ لگا ہوا تھا ۔اس چارٹ پر مجھ سمت ان تمام رہائشوں کے نام تھے، جو وہاں مقیم تھے۔ ہفتے میں ایک دن سب کو اپنے ہاسٹل کے کمرے کے باہر کا حصہ اور نیچے سیڑھیوں تک کا حصہ جھاڑو سے صاف کرنا ہوتا تھا۔ اس چارٹ پہ صفائی کے بعد درج کر دینا ہوتا تھا کہ میں نے آج کا اپنا کام کر لیا ہے۔ اس کام کو چیک کرنے کی کسی کی ذمہ داری نہیں تھی۔ کوئی دیکھتا تھا نہ پوچھتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ہوسٹل میں کون کون قیام پذیر تھے ۔کتنے لوگ تھے ۔کتنے مرداور کتنی خواتین مجھ سمیت شاید دوسروں کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہم ایک دوسروں کے ناموں سے صرف اس چارٹ کے ذریعے واقف تھے۔ جس پر سب کے نام درج تھے۔ تعلیم مکمل ہونے پر جس دن میںواپس آ رہا تھا ۔ا س روز میری ہوسٹل کا وہ ایریا صاف کرنے کی باری تھی ۔ فلائٹ کی افراتفری میں اور سامان پیک کرنے کی وجہ سے میں اس دن ہاسٹل اور وہ سیڑھیاں صاف نہیں کر سکا۔ اس بات کو 20سال گزر چکے ہیں ،لیکن آج بھی جب میں اس بات کو یاد کرتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے کہ میں اپنے حصے کا کام سر انجام نہیں دے سکا۔
میرے سینے پر اس بات کا بہت بوجھ ہے اور یہ شاید میری زندگی کے بہت بڑے پچھتائوں میں سے ایک ہے۔ میں اپنی فلائٹ کا بہانہ بنا کر اپنے دل کو جتنی بھی تسلی دینا چاہوں، نہیں دے سکتا کیونکہ سامان پیک کرنے کے بعد ٹیکسی پکڑ کر ایئرپورٹ پر پہنچنے کے باوجود میں اگر چاہتا تو میں اپنے ہاسٹل کا باہر کا ایریا اور سیڑھیوں کو جھاڑو سے صاف کر سکتا تھا، لیکن میرے دل میں یہ خیال آتا رہا کہ میں نے آج واپس چلے جانا ہے۔ جب پاکستان چلا جاں گا تو پھر میرا کیا تعلق یہاں سے۔
آج سمجھ میں آیا کہ وہ تعلق آپ کا کام سے ،جگہ سے یا لوگوں سے نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلق آپ کا اپنے ساتھ ہے ۔اپنی ذات کے ساتھ ہے اور اپنے خدا کے ساتھ ہے۔ آپ خدا کو جواب دہ ہیں۔ اپنے ضمیر کو جواب دہ ہیں ۔اپنے دل کو جواب دہ ہیں۔ آپ اپنی ہی نظروں میں گر جائیں یہ سب سے بڑی شکست ہے۔
رمضان کا 28واںروزہ تھا۔ میں بیگم کے ساتھ ایک پیزا ریسٹورنٹ گیا۔ وہ پیزا ریسٹورنٹ انٹرنیشنل چین ہے اور اس کے سٹاف ورکرز ہمیشہ ہی بڑی محبت، اپنائیت، دلچسپی،خیر خواہی اور ذمہ داری سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ جب میں اپنا آرڈر دے رہا تھا تو اس سے قبل ایک صاحب اپنا پیزا ریسیو کرنے کے لیے پہنچے ۔ انہوں نے پیزے کا ڈبہ کھولا پیزا دیکھا اور اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنے جسامت کے لحاظ سے بڑی جاندار آواز میں کہا کہ میں یہ پیزا نہیں لوں گا۔ مجھے یہ پیزا نہیں چاہیے ۔اس میں چیز کم ہے۔ میں دل میں مسکرا دیا اور خاموش یہ تماشہ دیکھنے لگا۔
سٹاف خاتو ن ورکر ان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ہم نے چیز اور سارا مٹیریل سٹینڈرڈ ،مقدار کے مطابق ڈالا ہے۔ سر اگر آپ کو ایکسٹرا چیز چاہیے تو اس کے لیے آپ ایکسٹرا ٹاپنگ کروا لیں ایکسٹرا پے کر لیں تو آپ کو ایکسٹرا چیز ڈال دیں گے۔ اس بات پر وہ صاحب اور لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ کہنے لگے کہ نہیں آپ مجھے اسی پیسوں میں چیز بڑھا کے دیں ۔ میں آپ کی شکایت اوپر کروں گا۔ وہ صاحب کافی گرم تھے اور ان کے ساتھ ان کا ایک صاحبزادہ بھی تھا جو غالبا چھ سال کا تھا۔ وہ بچہ بھی اپنی باپ کی یہ فطرت دیکھتا رہا۔ وہ خاتون بڑی عاجزی سے ان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کرتی رہی کہ سر ہماری طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے پیزا معیار کے عین مطابق بنایا ہے۔ اگر اپ کسی اور وجہ سے اس کو کینسل کرنا چاہتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ جب اس معاملے کا کہیں کوئی حل نہ نکلا تو وہ خاتون مجبورا ایک نیا پیزا لگانے کے لیے تیار ہو گئی۔ مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ ہماری اپنی ذات ہماری اپنی شخصیت کیا اتنی چھوٹی، اتنی کمزور، اتنی کمتر ہے کہ ہم کسی ریسٹورنٹ میں چیز زیادہ نہ ڈالنے پر مرنے مٹنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
اس صاحب کی جتنی جسامت تھی۔ جتنا ان کا قد تھا۔ وہ قد اور وہ جسامت سب کچھ چیز نگل گیا۔ میں دل ہی دل میں مسکراتا رہا کہ ایک انسان کو اتنا چھوٹا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی ریسٹورنٹ میں افطاری کے بعد کی کہانی بھی سن لیں۔
میں اور میری بیگم افطاری کر چکے تھے۔ زندگی میں کبھی کبھی چند لمحے ایسے ملتے ہیں، جب لگتا ہے کہ وقت تھوڑی دیر کے لیے تھم گیا ہے۔ اس وقت اپنے آپ سے ملاقات کا اتفاق ہوتا ہے۔ ایسے لمحے ایسا وقت اور ایسے اتفاقات زندگی میں ہوتے رہنے چاہیے۔ ہمیں خود سے ملنا چاہیے۔ خود سے سوال کرنے چاہیے ۔ خود سے پوچھنا چاہیے۔
میں چونکہ این سی اے سے نکل کر بیگم کو پک کر کے ریسٹورنٹ پہنچا تھا تو باتوں باتوں میں بیگم نے بتایا کہ نوید اگر آج آپ باہر افطاری کرنے سے انکار کر بھی دیتے تو میں خود اکیلے افطاری باہر کر لیتی۔ مہوش کا کہنا تھا کہ انسان کو کبھی کبھی اپنے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ اپنی ذات کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ اپنے آپ سے باتیں کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کا حال پوچھنا چاہیے۔ ہم دوسروں کے لیے جی رہے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں پاکستان جیسی سوسائٹی میں ہم بچوں کے لیے زندہ ہیں۔ ہم اپنے عزیز رشتہ داروں کے لیے کافی فکر مند رہتے ہیں۔ ہم دوستوں اور پیاروں کے لیے کافی فکرمند رہتے ہیں۔ یہ بہت اچھا جذبہ ہے جس کی شدت شاید کبھی بھی کم نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم خود یا ہماری ذات کہاں کھو جاتی ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ یہ تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم کہاں گم ہو رہے ہیں۔ ہم کہاں کھو رہے ہیں۔ خوبصورت باتیں ہوئی اس محفل میں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میری ٹیبل کے پیچھے ایک مہذب تعلیم یافتہ اور کافی بڑی فیملی بیٹھی ہوئی تھی۔ ان کے پیزوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی ۔ ان کے ڈرنکس کافی زیادہ تھے اور مجھے دیکھ کر اچھا لگ رہا تھا کہ وہ فیملی بھی شاید کافی عرصے کے بعد یوں مل بیٹھی ہے۔
ہماری گفتگو بھی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ فیملی فری ہو گئی اور جب ریسٹورنٹ سے جانے لگے تو ان کا ٹیبل ان کی باقیات سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے ہمت کر کی انہیں کہہ دیا کہ اگر آپ یہ اپنی ٹیبل نیٹ کر جائیں گے تو آپ کو بہت اچھا لگے گا۔ میرے اس جملے پر وہ سب فیملی ایک دوسرے کو دیکھنے لگی اور سب کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ ایک لمحے کے لیے وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ مجھے دیکھتے رہے پھر اس کے بعد وہ مسکراتے ہوئے ریسٹورنٹ سے چلے گئے۔
دل ٹوٹ سا گیا ،حالانکہ انہوں نے میرا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ میرا دل کیوں ٹوٹا۔ مجھے کیوں دکھ ہوا ۔میرا دل اس لیے ٹوٹا۔ مجھے دکھ اس لیے ہوا کہ میں اس ریسٹورنٹ سٹاف ورکر کے بارے میں سوچ رہا تھا جس نے اگلے ہی لمحے ا ٓکر وہ میز صاف کرنی تھی ۔وہ سٹاف ورکر بھی کسی کا بیٹا ہے ۔کسی کا بھائی ہے ۔کسی کا خاوند ہے ۔کسی کا باپ ہے۔ سوچیں ذرا آپ نے کتنے لوگوں کا دل دکھایا۔
ابھی چند دن پہلے گاڑی کا کام کرا رہا تھا ۔ورکشاپ پر وہ بچہ جو پاکستان میں چھو ٹے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں بھی کام کر رہا تھا۔ جس کی عمر بمشکل 12سال ہوگی ۔اس بچے کے ہاتھ اتنے سخت ہو چکے تھے کہ شاید پتھر بھی اتنے سخت نہ ہوں ۔ اس ورکشاپ کے اوپرجو فیملی رہتی تھی۔ اس فیملی کے دو بچے اس ورک شاپ کا کام کرنے والے بچے کے ہم عمر تھے۔12 سال کے بچے کا بچپن ہم تصور کر سکتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ وہ دونوں بچے جو ورکشاپ کے اوپر گھر میں رہتے تھے۔ اسی ورکشاپ کے سامنے سائیکل چلا رہے تھے۔ وہ ایریا چونکہ محلے سے تھوڑا سا کٹا ہوا تھا ۔ اس کئے ان بچوں کے پاس بھی کوئی اور بچہ نہیں تھا جس سے وہ باتیں کر سکتے ہیں تو وہ دونوں بھائی ہر تھوڑی دیر کے بعد سائیکل ورک شاپ کے سامنے کھڑی کرتے اور بھاگ کر اندر آ جاتے ہیں اور ورک شاپ کے اس چھوٹے کے ساتھ دلچسپ باتیں کرنے لگتے۔ میں ان سب چیزوں کو نوٹ کر رہا تھا ۔وہ بچہ جو ورکشاپ پہ کام کر رہا ہے وہ پتہ نہیں کس مجبوری میں کن تکلیفوں کی وجہ سے وہاں پہ کام کر رہا ہے لیکن شاید اس کے دل کی عمر اس کی اپنی، عمر اس کی سوچ کی عمر، اتنی نہیں ہوئی تھی کہ وہ آنے والے بچوں کے ساتھ اٹیچ نہ ہو پاتا۔ وہ بچے آتے اس سے بات کرتے اور وہ بھی ان سے بات کرتا ،مسکرا دیتا ۔کسی بات کا جواب دیتا، کسی بات کو سنا ان سنا کر دیتا ،کیونکہ اسی اس بات کا ڈر اور خوف بھی تھا کہ میرا استاد مجھے مارے گا۔ پاکستان کے لاکھوں، کروڑوں بچے ایسے ہیں جو سکولوں سے باہر ہیں اور اسی طرح کی ورکشاپس پہ کام کر رہے ہیں۔ وہ اسی ڈر اور خوف کے ساتھ زندہ ہیں ۔ ان کا استاد انہیں مارے گا ۔ا میں اس بچے کو کام کرتے دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں اس نظام کو کوستا رہا ۔وہ نظام جو ہمیں سیاست دانوں نے دیا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے آج ہم بھکاری بن چکے ہیں۔ جتنی بھی حکومتی آتیں ہیں۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی تگ و دو میں رہتی ہیں۔ وہ یہ قرضہ پاکستان کے لیے یا پاکستان کے غریب بچوں کے لیے، یا پاکستان کے غریب چھوٹوں کے لیے نہیں لیتیں۔ وہ قرضہ اپنے لیے لیتیں ہیں کیونکہ یہ اشرافیہ جتنی شان و شوکت کے ساتھ پاکستان میں زندہ ہیں۔ وہ ساری شان و شوکت اسی پیسے کی مرہون منت ہے جو ہمیں آئی ایم ایف کی طرف سے ملتے ہیں۔ سرکاری ملازم بے انتہا مراعات کے ساتھ پاکستان کے سینے کا بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ کچھ اور ادارے بھی ہیں۔ اس ادارے کے ملازم بھی کسی بوجھ سے کم نہیں ہے۔ اس ادارے کے اعلی حکام ،سرکاری ملازمین ہمارے صوبائی اور وفاقی وزرا ہمارے وزرائے اعلی ہمارے گورنرز وزیروں کے مشیر کن کن کا نام لیا جائے ۔سبھی ایسی خوبصورت زندگی گزار رہے ہیں کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ دنوں ورلڈ بینک اور دنیا کے کئی اور معاشی اداروں کی یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ اس سال پاکستان میں مزید ایک کروڑ لوگ غربت میں چلے جائیں گے اور اس سے قبل بھی پاکستان میں بسنے والے نو کروڑ افراد غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
کاش حکومتی ایوانوں میں بھی کبھی کوئی پچھتاوا ہو !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button