مجرموں کا علاج تو کرنا ہی ہوگا
تحریر : علی حسن
شہری بلک رہے ہیں۔ کراچی ہو یا سندھ کے کوئی اور شہر، سب ہی بیک وقت خطر ناک قسم کی لاقانونیت کا شکار ہیں۔ کچے میں اگر ڈاکو سرگرمی کے ساتھ دندنا رہے ہیں تو کراچی جیسے شہر میں لوٹ مار سے کوئی محفوظ نہیں ہے ۔ موبائل فون اور موٹر سائیکل کا چھینا جانا عام سی واردات بن گئی ہے اور اسی چھینے کی کارروائی کے دوران جرائم پیشہ لوگ پستول سے فائر کر کے آدمی کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ کوئی مقام محفوظ نہیں ہے۔ سڑک تو غیر محفوظ ہوتی ہی ہے لیکن بنکوں کے اے ٹی ایم، بنکوں سے رقم لے کر باہر نکلتے ہوئے، غرض کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ ہوں، پولس کے سربراہ ہوں، دیگر افسران ہوں، سیاسی رہنما حضرات ہوں، غرض سب ہی لوگ ’’ تعزیت‘‘ کرتے ہیں اور بس۔ کیا وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد پر قابو پانا کیوں مشکل ہو گیا ہے۔ کچے کے بارے میں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بااثر افراد سرپرستی کر رہے ہیں اس لئے پولس مجبور ہے۔ کراچی جیسے علاقے میں کو کس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ صرف کراچی میں ماہ رمضان کے دوران ڈاکوئوں کی فائرنگ سے 16شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ پولس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہر میں ایک ماہ کے دوران اسٹریٹ کرائم کی 6780وارداتیں پیش آئیں ہیں۔ ماہ رمضان میں 20گاڑیاں چھینی اور 130سے زائد چوری کی گئیں، جبکہ 830موٹرسائیکلیں چھینی اور 4200چوری ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ایک ماہ کے دوران موبائل چھیننے کے 1600کے قریب واقعات پیش آئے ہیں۔ محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) کا ڈاکوئوں سے کراچی میں رشوت کی وصولی کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی افسرا ن نے ڈکیتی کرنیوالے ملزمان سے مبینہ طورپر رشوت کی آڑ میں17لاکھ روپے وصول کئے۔ سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق گزشتہ ماہ مارچ کے مہینے میں سی ٹی ڈی نے پوش علاقوں میں ڈکیتیوں میں ملوث دو ملزمان شیر مالک اور عرفان کو گرفتار کیا جن کے خلاف درخشاں اور بوٹ بیسن تھانے میں 36لاکھ اور 19لاکھ روپے کی ڈکیتی کے مقدمات درج ہیں۔ سی ٹی ڈی نے دونوں ملزمان سے مبینہ طور پر 17لاکھ روپے رشوت وصول کرکے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جبکہ ملزمان سے کسی قسم کی ریکوری نہیں کی گئی اور نہ ہی سائوتھ زون پولیس سے رابطہ کیا گیا تاکہ ملزمان کے کریمنل ریکارڈ کی مزید جانچ پڑتال کی جاتی۔
کراچی کی مقامی عدالت نے کہا ہے کہ کراچی میں سٹریٹ کریمنلز کے نیٹ ورک کے خلاف سخت کارروائی کا وقت آگیا ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ کراچی میں سٹریٹ کریمنلز اور چھینے گئے موبائل فونز خریدنے والے نیٹ ورک کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ گزشتہ 3ماہ میں محض 19سٹریٹ کریمنلز کو سزائیں ہوسکیں جو جرائم کی شرح کے لحاظ سے کافی نہیں۔ عدالت نے سٹریٹ کرائم میں ملوث ملزم عمران اور چھینے گئے موبائل کے کاروباری ملزم عبید کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ ایک طرف سٹریٹ کریمنلز معمولی مزاحمت پر معصوم شہریوں کی جان لے لیتے ہیں، دوسری طرف چھینے گئے موبائل فون خریدنے والے جرائم پیشہ عناصر کو بچا رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وقت آگیا ہے کہ سٹریٹ کریمنلز اور چھینے گئے موبائل فون خریدنے والے دکان داروں کے نیٹ ورک کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
رواں سال کے پہلے 3ماہ میں کراچی کی پانچ ضلعی عدالت نے 332مقدمات کا فیصلہ سنایا، جن میں سے محض 19ملزمان کو ہی سزائیں ہوسکی ہیں۔ گزشتہ 3ماہ میں عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزائوں کا تناسب تقریباً 6فیصد رہا ہے۔ اسسٹنٹ ڈپٹی پبلک پراسکیوٹر رانا محمد علی کہتے ہیں کہ پکڑے جانے والے سٹریٹ کریمنلز زیادہ تر عادی مجرم ہیں جو کمزور انویسٹی گیشن کا فائدہ اٹھاکر بری ہوجاتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع جنوبی نے گزشتہ 3ماہ میں 8ملزمان کو سزائیں سنائی جبکہ 26ملزمان کو عدم شواہد کی بناء پر بری ہوئے۔ ضلع شرقی کی عدالتوں نے بھی 8ملزمان کو سزائیں سنائی جبکہ 122ملزمان کو بری کر دیا، جبکہ ضلع غربی کی عدالتوں نے 2ملزمان کو سزائیں سنائیں اور 27ملزمان کو بری کیا۔ اسی طرح ضلع وسطی کی عدالتوں نے 23کیسز کا فیصلہ سنایا جس میں تمام ملزمان ہوگئے، ضلع ملیر کی عدالتوں نے تین ماہ میں ایک ملزم کو سزا سنائی جبکہ 115ملزمان کو بری کر دیا۔آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پولیس اب کچے کے ڈاکوئوں کا خاتمہ کرکے ہی دم لے گی کچے کے علاقوں کو سیل کر دیا ہے، مجرموں کو کسی صورت میں بھی معاف نہیں کیا جائے گا، ڈاکو اگر سرینڈرکریں گے تو ان کو پولیس کیسز میں رعایت دی جائے گی، پولیس کو بھی کچھ جدید اسلحہ مل گیا ہے، کچھ اسلحہ دو ہفتے میں ترکی سے آجائیگا، کچے کے سرداروں اور علاقہ معززین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کچے میں اغوا کی وارداتیں 12سال قبل بھی تھیں، کشمور، شکار پور اور گھوٹکی میں پہلے ڈاکو زبردستی اغوا کرتے تھے، اب ہنی ٹریپنگ کر رہے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران 529لوگوں کو ہنی ٹریپ کے ذریعے اغوا ہونے سے بچایا گیا، گھوٹکی اور سکھر میں اغوا کی وارداتیں زیرو کر دیں گے، کچے کے ڈاکوئوں کے خاتمے اور کراچی میں امن و امان کے قیام کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکوئوں کے پاس جدید طرز کا اسلحہ ہے اس لئے وہ جرائم کر رہے ہیں اور پولیس سے بھی لڑ رہے ہیں ۔
وفاقی حکومت میں اتحادی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ رینجرز کو پورے سندھ میں کراچی طرز کے اختیارات دیئے جائیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں نے وفاق سے سندھ میں امن و امان کی صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کراچی میں شہریوں کی لاشیں گرتی تھیں تو وفاق نوٹس لیتا تھا، وزیر داخلہ سندھ منہ کھولنے سے پہلے آنکھیں کھولیں، سندھ میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں۔ رمضان میں ڈکیتی مزاحمت پر بہت سے شہریوں کو قتل کیا گیا، کراچی کے سٹریٹ کرمنلز کے خلاف کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ کئی بار مجرم بھی سندھ پولیس کی صفوں سے ہی ملتے ہیں۔ سنیئر رہنما اور سینیٹر سید فیصل سبزواری نے کہا کہ سندھ حکومت اپنی کامیابی کے خمار سے واپس ہی نہیں آرہی ہے، پولیس کی کالی بھیڑوں کے بغیر جرائم نہیں ہوسکتے ہیں۔ کراچی میں جو ظلم و ستم ہورہا ہے اسکی مثال نہیں ملتی، سندھ حکومت کی عوام پر توجہ ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس 16سال وزارت داخلہ رہی ہے مگر انہوں نے جرائم پیشہ لوگوں کی سر پرستی کی۔ کراچی میں رینجرز کو مکمل اختیارات ہیں، باقی سندھ میں نہیں، کراچی اور سندھ میں رینجرز کو یکساں اختیارات دئیے جائیں۔ جواب میں وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے ایم کیو ایم رہنمائوں کے بیان پر رد عمل میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم پولیس فورس کو متنازع بنا کر مجرموں کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خواجہ اظہار الحسن شہباز شریف کی ترجمان بن گئے ہیں۔
حکومت سے کچے کے ڈاکوئوں ہوں یا پکے میں لوٹ مار کرنے والے، ان کا کوئی علاج اور پکا بندوبست مختلف وجوہات کی وجہ سے نظر نہیں آتا ہے ۔ کیا افغانستان میں کیا جانے والا علاج پاکستانی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے صوبہ ہرات اور قندھار کے راستوں میں ڈاکہ زنی، خواتین کے ساتھ جبری زنا، ناروا سلوک کی پاداش میں پکڑے گئے ڈاکوئوں کو طالبان نے سزائے موت دیدی۔ نہ لمبی لمبی پیشیاں ، نہ لمبی تفتیش ، نہ چند ماہ ۔ ملزمان کو ایک بڑے کھلے میدان میں مسلح افراد کے گھیرے میں بٹھا یا گیا۔ سینکڑوں لوگ جمع ہو گئے۔ ملزمان کے خلاف الزامات سنائے گئے اور پھر فیصلہ براہ راست گولی مار دی گئی۔ یہ طریقہ انصاف اس لئے کہ مجرمان کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ ایسے نظام انصاف کے بارے میں ان لوگوں کی کیا رائے ہو سکتی ہے جو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں ہونے والی کارروائیوں پر بلک رہے ہیں۔