Column

یتیم بچوں کی کفالت ہمارا فرض اور قرض

تحریر : ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن
بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں، بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ والدین کا سایہ یقیناً ہر بچے کے لیے لازم و ملزوم ہوتا ہے ۔ کوئی بھی بچہ زندگی کے نشیب و فراز میں والدین کے سہارے کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا، کیونکہ18سال کی عمر تک ہر بچے کو تعلیم، صحت اور خوراک سمیت تمام سماجی اور ذہنی ضروریات پوری کرنے کیلئے والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے کسی بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہی اسکے والدین کا سہارا ہے ۔ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں روزانہ 10ہزار سے زائد بچوں سیان کے والدین کا سایہ چھن جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت 17کروڑ سے زائد یتیم بچے ہیں، جن میں سے اڑھائی کروڑ بچوں کے والد اور والدہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یہ اعداد و شمار مختلف عالمی اداروں کے تسلیم اور تصدیق شدہ ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں یتیم بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان یتیم بچوں میں سے اکثریت غریب افریقی اور ایشائی ممالک میں ہے۔ جنگ، بدامنی اور قدرتی آفات جہاں ممالک اور اقوام کیلئے تباہی کا پیغام لاتی ہیں، وہیں معصوم بچوں کی زندگیاں بھی آزمائش بنا دیتی ہیں۔
گزشتہ 2دہائیوں کے دوران جہاں عالمی منظر نامہ تیزی سے بدلاہے، وہیں مختلف ممالک میں جنگوں، قدرتی آفات اور حادثات نے یتیم بچوں کی صورت میں ایک المیے کو بھی جنم دیا۔ کروڑوں یتیم بچے سر پر چھت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی ضرورت کی اشیاء سے محروم ہوگئے ہیں، یقیناً یہ اقوام عالم کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہیں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دسمبر 2013میں ترکی کے فلاحی ادارے آئی ایچ ایچ کی تجویز پر اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) نے پہلی بار 15رمضان کو یوم یتامیٰ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اسی تجربے کو مدنظر رکھتے ہوءے پاکستان میں یتیم بچوں کیلئے کام کرنے والے اداروں کا اجلاس ہوا، جس میں ملک میں موجود یتیم بچوں کے مسائل اور ان کے حل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، بعدازاں یہاں بھی 15رمضان المبارک کو یتیم بچوں کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کے فلاحی اداروں نے 20مئی 2016کو اپنے اعلامیے میں اس کا اعلان کیا۔ آرفن کئیر فورم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا، یتیم بچوں کیلئے کام کرنے والے ڈیڑھ درجن سے زائد ادارے اس فورم کے ممبر ہیں۔ اس فورم میں الخدمت فائونڈیشن، ہیلپ ان نیڈ، ہیومن اپیل، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف، قطر چیریٹی، ریڈ فائونڈیشن، ہیلپنگ ہینڈفار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ، وامی، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، مسلم ہینڈز، انجمن فیض الاسلام، تعمیر ملت فائونڈیشن، آرفنز ان نیڈ، صراط الجنت ٹرسٹ، جونیئر جناح ٹرسٹ، پینی اپیل، نارتھ امریکن مسلم فائونڈیشن اور فائونڈیشن آف دی فیتھ فل شامل ہیں ، یہی نہیں بلکہ ہر وہ تنظیم یا ادارہ جو ملک میں یتیم بچوں کی کفالت یا فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہا ہے وہ ’’ پاکستان آرفن کئیر فورم‘‘ کا حصہ بن سکتا ہے۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، اس ماہ مبارکہ میں نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد عبادات کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ بھی کرتی ہے۔ یقیناً اس ماہ کے دوران یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لئے کام کرنے والے اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے تاکہ یہ بچے بھی معاشرے کے دیگر بچوں کی طرح اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔
سوال یہ ہے کہ کفالت یتامیٰ کیوں ضروری ہے۔ کفالت یتامیٰ جہاں باعث اجر اور شفاعت رسولؐ کا ذریعہ ہے ، وہیں پرامن معاشرے کی تعمیر کیلئے بھی ان بچوں کی درست سمت میں رہنمائی بھی ضروری ہے ۔ میری نظر میں یتیم بچہ ایک اَن گائیڈڈ میزائل کی طرح ہوتا ہے، یہ نتائج سے بے پروا ہ ایک ایٹم بم ہوتا ہے، معاشرہ جس طرح اسے ڈیل کرتا ہے، وہ اسی انداز میں معاشرے کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس پر نگران نہ ہونے کے باعث غالب امکان ہے کہ وہ تباہی کے راستے پر چل پڑے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک لاکھوں یتیم بچوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا، یہ یتیم بچے جہاں خام سونا ہیں، وہیں انھیں بھرپور توجہ دے کر ان کی کفالت کرکے انہیں کندن بنایا جاسکتا ہے۔
یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں 23مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔پاکستان کے 46لاکھ کے قریب یتیم بچے، اپنوں کی عدم توجہی اور معاشرے کی بی اعتناعی کے باعث ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں، یہ معصوم پھول بھکاری مافیا، آرگن مافیا اور انسانی سمگلرز کے ہاتھ چڑھ سکتے ہیں، یہی نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد بھی ایسے ہی بچوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور کسی بھی وقت انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ ا گرچہ پاکستان میں اتنی بھیانک صورتحال نہیں ہے، یتیم بچوں کے رشتہ دار اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی پرورش کرتے ہیں، غیر سرکاری ادارے ان کی مدد کو حاضر ہوتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کئی مخیر حضرات انفرادی طور پر بھی کفالت یتامیٰ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس کی باوجود یہ خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ اب بھی لاکھوں بچے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، آج بھی مسکراتی کلیاں اپنے بچپن کی مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں، وہ پھول بن کر کھلنا چاہتی ہیں، وہ پھل بن کر معاشرے میں مٹھاس بانٹنا چاہتی ہیں۔ انہیں ضرورت ہے تو میرے اور آپ جیسی مالیوں کی، جو اپنے مال میں سے ان کلیوں کی آبیاری کریں، انہیں جی جان سے توجہ دے کر معاشرے کا مفید شہری بنائیں۔ وطن عزیز کے دھنک رنگوں میں محبتوں کے رنگ بھریں، جگنو بن کر وطن عزیز کی مانگ ستاروں سے سجا دیں۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہم اپنی استطاعت کے مطابق ان بچوں کی کفالت کریں، اگر انفرادی سطح پر ہماری استطاعت نہیں ہے تو ایسے اداروں کے دست و بازو بنیں جو اپنے گلستان پیارے پاکستان میں یتامیٰ کی کفالت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
آئیے! آج یوم یتامیٰ کے موقع پر آرفن کئیر فورم کا پیغام ہر محب وطن، صاحب حیثیت پاکستانی تک پہنچائیں۔ ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں جہاں کوئی یتیم بچہ ورکشاپ یا ڈھابے پر نہ ہو بلکہ اس کی منزل سکول ہو، ان یتیم بچوں کو اپنی آغوش میں اس طرح سمیٹیں کہ کسی جرائم پیشہ گروہ کی نظریں پیارے دیس کے اس قیمتی سرمائے تک نہ پہنچیں ۔ یہ 46لاکھ یتیم بچے سگنل پر کھڑے ہوکر بھیک نہ مانگیں بلکہ سکول کی اسمبلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ آئیں رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں یتیم بچوں کے ساتھ عہد کریں کہ یہاں انہیں بھی جینے کا، پڑھنے کا اور آگے بڑھنے کا پورا حق ہے اور ہم انہیں ان کا یہ حق خود دیں گے۔ ہمارا یہ عہد ہی ہمیں منزل مراد تک پہنچائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button